لاہور دھماکہ: تحقیقات میں پیش رفت، مزید گرفتاریاں

حساس اداروں کے مطابق دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی مردان میں تیار کی گئی تھی اور دھماکہ خیز مواد ممکنہ طور پر گاڑی میں لگے سی این جی سلینڈر میں نصب کیا گیا تھا۔

سکیورٹی اہلکار 23 جون کو جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

حساس اداروں اور محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں کالعدم تنظیم جماعت دعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہونے والے کار بم دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں اور تحقیقاتی اداروں نے دھماکے کے سلسلے میں ہفتے کے روز مزید گرفتاریاں کی ہیں۔

23 جون کو ہونے والے اس دھماکے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ یہ حملہ 2008 کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہوا تھا، جنہیں بھارت کی جانب سے 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔

حافظ سعید کو امریکی محکمہ انصاف نے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور ان کے سر پر  10 ملین ڈالر کا انعام ہے۔ حافظ سعید کو اس دھماکے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق تفتیشی افسر احمد وکیل نے بتایا کہ پولیس نے صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤ الدین سے ایک شخص کو گرفتار کیا، جس نے دھماکے میں استعمال شدہ کار فروخت کی تھی۔

احمد وکیل نے مزید بتایا کہ دیگر دو افراد کو خیبر پختونخوا سے گرفتار کیا گیا، جو مبینہ طور پر کار میں بارودی مواد نصب کرنے میں ملوث تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حساس اداروں کے مطابق دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی مردان میں تیار کی گئی تھی اور دھماکہ خیز مواد ممکنہ طور پر گاڑی میں لگے سی این جی سلینڈر میں نصب کیا گیا تھا۔

تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی 21 جون کو بذریعہ موٹروے مردان روانہ کی گئی اور دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کے بعد 23 جون کو گاڑی لاہور میں داخل کی گئی، جسے سجاد نامی ملزم لاہور لے کر آیا۔ سجاد کو پہلے ہی منڈی بہاؤ الدین سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جمعے کو سکیورٹی فورسز نے لاہور ایئر پورٹ پر ایک پاکستانی شہری ڈیوڈ پیٹر پال کو اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حساس اداروں کے مطابق پیٹر پال سے تفتیش کے دوران ملنے  والی معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں جاری ہیں۔

تحقیقاتی اداروں کے مطابق تخریب کاری کی اس واردات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں جبکہ مزید شواہد بھی جمع کیے جارہے ہیں۔

اس واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمال کا کہنا ہے کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور جیسے ہی یہ مکمل ہوں گی، انہیں منظر عام پر لایا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان