ویانا مذاکرات میں تعطل’غیر تسلی بخش‘ ہے: عالمی توانائی ایجنسی

ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے اس معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہونے کا اشارہ دیا تھا لیکن ان کی انتظامیہ اب ان مذاکرات کی طوالت سے بے چین دکھائی دیتی ہے۔

رواں سال فروری میں ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے ترجمان  بہروز کمال واندی  اور  بین الااقوامی توانائی ایجنسی کے سربراہ رفائیل گروسی کے درمیان ہونے والی ملاقات (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں تعطل نے عالمی ادارے کو ایک ’غیر تسلی بخش پوزیشن‘ میں ڈال دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوموار کو ریو ڈی جنیرو میں بین الااقوامی توانائی ایجنسی کے سربراہ رفائیل گروسی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ابھی بہت سے سوال ہیں جن کی ہم ایران سے وضاحت لینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑ رہا ہے تاکہ نئی ٹیم اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔‘  

رفائیل گروسی ان دنوں برازیل کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔

اس سے قبل ہفتے کو ایک ایرانی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ اگست میں نئی حکومت کے ذمہ داریاں سنبھالنے تک ویانا میں تعطلی کے شکار مذاکرات کو دوبارہ شروع نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے ایران میں گذشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں سخت گیر ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی تھی۔  

رفائیل گروسی کا کہنا تھا کہ ’یہ اعلان کہ مذاکرات اس وقت بحال ہوں گے جب ابراہیم رئیسی زمہ داریاں سنبھالیں گے ہمیں کافی غیر تسلی بخش پوزیشن میں ڈالتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اپنے ادارے کی بات کر رہا ہوں۔ میں دوسروں کے بارے میں نہیں جانتا۔ میں سمجھتا ہوں انہیں انتظار کرنے کے بجائے مذاکرات کرنے چاہییں۔‘

یاد رہے امریکہ اور ایران کے درمیان ویانا میں بلاواسطہ مذاکرات رواں سال اپریل سے جاری ہیں تاکہ سال 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر پیش رفت ہو سکے۔

 اس معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے محدود کیا جانا تھا لیکن امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے 2018 میں یک طرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے اس معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہونے کا اشارہ دیا تھا لیکن ان کی انتظامیہ اب ان مذاکرات کی طوالت سے بے چین دکھائی دیتی ہے۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک مسلسل اور مکمل شدہ انداز اور تعمیری حکمت عملی کے ساتھ اس معاہدے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر ہم ایسا مستقل اور قابل تصدیق طریقہ کار وضع کریں کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار نہ حاصل کر سکے۔ ہم اس بارے میں بھی واضح ہیں کہ یہ پیش کش ہمیشہ کے لیے دستیاب نہیں ہو گی۔‘

 ایران نے اپنے اوپر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے لیے بہت دباؤ ڈالا ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ صرف جوہری پروگرام کے حوالے سے عائد پابندیوں پر بات کرے گی جب کہ انسانی حقوق اور علاقائی عسکری ملیشیاز کا معاملہ ان میں شامل نہیں ہو گا۔

اس حوالے سے ویانا میں جاری مذاکرات کا چھٹا دور 20 جون کو اختتام پذیر ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مذاکراتی دور یورپی یونین کی سہولت کاری سے ہو رہا ہے جو برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کی طرح ابھی تک 2015 میں کیے جانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔

ایران کے جلد ہی سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے قبل ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو ختم کروائیں گے لیکن گذشتہ ہفتے ہونے والے اعلان کے بعد ایسا محسوس ہوتا کہ ان کے سبکدوش ہونے سے قبل یہ مذاکرات مکمل نہیں ہو سکیں گے۔

ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی پانچ اگست کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

ایران میں طاقت کا منبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں جنہوں نے سال 2015 میں کیے جانے والے معاہدے اور پھر اس کی بحالی کے لیے کیے جانے والے مذاکرات کے لیے اجازت دی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا