دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں بولنگ نے بیٹنگ کی لاج رکھ لی

پاکستان نے اگر کمزور ہدف کا بہترین دفاع کیا تو ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہدف کے تعاقب میں تھکن سے دوچار نظر آئی اور ایک آسان جیت پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔

محمد وسیم ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی شمرن ہتمیئر کوآؤٹ کرنے کے بعد (اے ایف پی)

پاکستان اور ویسٹ انڈیز ایک جیسی دو ٹیمیں ہیں جن کے لیے کرکٹ ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے مزاج میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے اور دل چاہے تو بڑا ہدف بھی پورا کرلیں اور موڈ نہ ہو تو مختصر سا ہدف بھی پہاڑ بن جائے۔

دورہ ویسٹ انڈیز کے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان نے اگر کمزور ہدف کا بہترین دفاع کیا تو ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہدف کے تعاقب میں تھکن سے دوچار نظر آئی اور ایک آسان جیت پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔

پاکستان تو خیر مہمان ٹیم ہے اور دورہ کررہی ہے، ایک سیریز ہار کر آئی ہے اس لیے متفکر بھی ہے لیکن ویسٹ انڈیز تو تازہ تازہ آسٹریلیا کو مٹی چٹا کر بیٹھی ہے، فارم بھی اچھا ہے اور جیت کا تسلسل بھی ہے لیکن گیانا کی پچ پر اس کے لیے 158 کا ہدف ایسا ہوگیا جیسے کوہ ہمالیہ پر چڑھنا۔

پاور پلے کا اصل مقصد ہوتا ہے کہ فیلڈ کا فائدہ اٹھا کر تیزی سے رنز بنا لیے جائیں۔ اگر 50 سے زیادہ رنز بن جائیں تو مخالف ٹیم کے بولرز پریشان ہو جاتے ہیں لیکن اگر رنز کی رفتار کمزور ہو تو بولرز حاوی ہو جاتے ہیں۔

ویسٹ انڈیز کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہدف کے تعاقب میں پاور پلے میں وکٹ بچانے کی کوشش نے رنز کی رفتار تو ہلکی کی لیکن ڈھلتی ہوئی عمر کے محمد حفیظ کو بلے بازوں کے سر پر چڑھنے کا موقع مل گیا۔

حفیظ کی بیٹنگ تو اب صحرا میں بارش کی بوندوں کی مانند ہوگئی، ہے کبھی کبھی ہی نظر آتی ہے لیکن بولنگ میں پچ کو استعمال کرنے کا ہنر اب بھی ہے۔

وہ جانتے تھے کہ پچ سلو ہے اور جتنی سلو بولنگ کی اتنی ہی کیریبئین بلے باز کو مشکل ہوگی کیونکہ گیند کی پچ پر اٹھنے کی طاقت معدوم ہوتی جارہی تھی ۔

یہی ہوا ۔۔۔۔ حفیظ کی سلو شارٹ پچ گیندیں کرس گیل کے لیے مصیبت بن گئیں۔ چار اوور اور صرف چھ رنز ۔۔۔ جیت کا سکرپٹ تو پروفیسر پہلے ہی  لکھ گئے تھے۔

پہلے ہی اوور میں فلیچر کو بولڈ کیا۔ وہ ضرورت سے زیادہ آگے آگئے تھے اور بولڈ ہوگئے۔  کرس گیل اور لوئس کی محتاط بیٹنگ نے ہدف کو مشکل تر بنا دیا۔

کرس گیل کی بیٹنگ تو اب بوجھ بنتی جارہی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرے بلے بازوں کی بیٹنگ بھی کسی جیت کے لیے کافی نہیں تھی۔ بس ایک پورن تھے جو اچھا کھیل سکے۔

 نکولس پورن وکٹ کیپر ہیں اور کیپنگ میں زخمی بھی ہوئے تھے لیکن بیٹنگ میں بہت کچھ کر گئے۔ آخری گیند تک جیت کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے کئی چھکے بروقت لگا کر ہدف کے قریب ہونے کی کوشش کی۔

ان کے 62 رنز جیت کے لیے کافی تھے اگر کوئی اور بلے باز  بھی کچھ ہاتھ دکھاتا۔ لیکن پاکستانی بولرز نے مختصر سے ہدف کا بہت عمدہ دفاع کیا۔

اگرچہ جیت اور شکست کے درمیان صرف آٹھ رنز ہی باقی رہے تھے لیکن شاہین شاہ آفریدی نے آخری اوور بہت عمدہ کیا، ہر گیند یارکر لینتھ پر کی جس سے آخری اوور میں 20 رنز نہ بن سکے اور پاکستان نے سیریز کی پہلی جیت کا مزہ چکھ لیا۔

پاکستان کی بیٹنگ کی خاص بات محمد رضوان کی شاندار بیٹنگ تھی۔ اگرچہ بابر اعظم نے 51 رنز بنائے لیکن ویسٹ انڈیز کیمپ میں صحیح گولہ باری رضوان کی تھی جنہوں نے مشکل وکٹ پر پاور پلے میں  56 رنز کی رفاقت کرکے پاکستان کو ایک اچھا آغاز دیا تھا، لیکن مڈل آرڈر بیٹنگ ایک بار پھر لڑکھڑا گئی۔

16ویں اوور میں  بارش نے کچھ دیر کھیل کو روکا تو خیال تھا کہ بارش کے بعد بیٹنگ بھی نکھر جائے گی لیکن بارش کے بعد جب دوبارہ میچ شروع ہوا تو پاکستان چار اوورز میں صرف 24 رنز بناسکا  اور مزید چھ وکٹیں بھی گرگئیں۔

20 اوورز میں 157 رنز بظاہر معمولی سا مجموعہ تھا لیکن پاکستانی بولنگ نے  کافی عرصے کے بعد کسی مختصر ہدف کا کامیاب دفاع کیا۔

ویسٹ انڈیز کے لیے گیانا کی پچ پر ٹاس جیت کر کیرن پولارڈ کا پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ ہی ان کی شکست کی وجہ بن گیا کیونکہ دوسری اننگز میں پاکستانی سپنرز نے پچ کا فائدہ اٹھا کر ٹیم کی شدت کو تحلیل کردیا اور جس فائدے کی تلاش میں پولارڈ تھے اسے پاکستان نے حاصل کرلیا۔

پاکستان کی بیٹنگ میں جو غلطیاں ہوئی ہیں ان پر بولنگ کی اچھی کارکردگی نے پردہ ڈال کر بچا تو لیا لیکن اگلے میچ میں ویسٹ انڈیز سخت حریف بن کر زخمی شیر کی مانند حملہ کرسکتی ہے۔ اس سے کسی رحم کی توقع کرنا فضول ہوگا کیونکہ پاکستان ہو یا ویسٹ انڈیز۔۔۔۔ کچھ پتہ نہیں کب کیا کر جائیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ