طالبان کی عبوری حکومت کا اعلان: ملا حسن اخوند سربراہ مقرر

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تقریباً تین ہفتے انتظار کے بعد افغانستان میں اپنی حکومت کی عبوری کابینہ کا علان کر دیا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تقریباً تین ہفتے انتظار کے بعد افغانستان میں اپنی حکومت کی عبوری کابینہ کا علان کر دیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کابل کے سرکاری میڈیا مرکز میں پریس کانفرنس سے خطاب میں نئی کابینہ کا اعلان کیا۔

نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد نے کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ محمد حسن اخوند ریاست کے سربراہ ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر ڈپٹی سربراہ ریاست کے فرائض سرانجام دیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اس موقع پر کہا کہ ملک پر ایک شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’امارت اسلامی‘ نے فیصلہ کیا کہ ضروری شعبے کو کام کرنے کے لیے ایک سرپرست کابینہ کا اعلان کیا جائے۔

اعلان کردہ افغان کابینہ میں مولوی محمد یعقوم وزیرِ دفاع، سراج الدین حقانی وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نئی کابینہ میں معاون وزیر اطلاعات کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

ان کے علاوہ مولوی امیر خان متقی وزیر خارجہ، ملا ہدایت بدری وزیر خزانہ، ملا خیر اللہ خیر خواہ وزیر اطلاعات، قاری دین محمد وزیر اقتصاد،مولوی  نور محمد ثاقب وزیر حج و اوقاف اور مولوی عبدالحکیم وزیر عدلیہ ہوں گے۔

افغان کابینہ کے دیگر ارکان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: ملا نوراللہ نوری وزیر برائے قبائلی امور، شیخ محمد خالد وزیر برائے دعوت و ارشاد، حاجی محمد عیسیٰ ویزر پٹرولیم، ملا حمید اللہ اخوندزادہ ویزر ٹرانسپورٹ، مولوی نجیب اللہ حقانی وزیر برائے انٹیلجنس، حاجی محمد ادریس سرپرست افغانستان بینک، شیر محمد عباس معاون وزیر خارجہ ہوں گے۔

اس موقع ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’جس طرح ہم نے دیکھا ہے کہ ملک بحران میں تھا اور لوگ اس انتظار میں تھے کہ ایک ادارہ ہو اور لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی امارت کی لیڈرشپ نے کابینہ کے اعلان کا فیصلہ کیا۔


امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے طالبان کی جانب سے افغانستان کے ایک شمالی شہر سے بذریعہ پرواز جانے کی کوشش کرنے والے امریکیوں کو روکے جانے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے چارٹرڈ فلائٹس کو جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ کچھ مسافروں کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ امریکی شہریوں سمیت ایک ہزار افراد کئی دنوں سے مزار شریف میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی چارٹرڈ پروازوں کو جانے کی کلیئرنس نہیں ملی ہے۔

پروازوں کے منتظمین میں سے ایک نے اس کا ذمہ دار امریکی محکمہ خارجہ کو ٹھہرایا۔

قطر میں منگل کو ایک پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ واشنگٹن نے ’نسبتاً‘ کم تعداد میں امریکیوں کی نشاندہی کی ہے جو مزار شریف سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک سے جانے والی چارٹرڈ پروازوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کچھ مسافروں کے پاس مناسب سفری کاغذات نہیں جس کی وجہ سے باقیوں کا بھی نکلنا رک گیا ہے۔

بلنکن نے کہا: ’میری معلومات کے مطابق طالبان نے کسی بھی شخص کو ملک چھوڑنے سے نہیں روکا جن کے پاس تمام سفری دستاویزات ہیں، مگر انہوں نے کہا ہے کہ جن کے پاس درست کاغذات نہیں وہ ابھی نہیں جا سکتے۔‘

ان کے مطابق اسی وجہ سے گروپ کے باقی لوگ بھی ابھی ملک سے نہیں جا سکے ہیں۔


پاکستان مخالف مظاہرے میں ہوائی فائرنگ

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منگل کو ایک پاکستان مخالف مظاہرے کے دوران شرکا کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے ہوائی فائرنگ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو 70 کے قریب افراد، جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں، کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے۔

انہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے اور وہ افغانستان میں پاکستان کی مبینہ دخل اندازی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

اے ایف پی کے عملے نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان جنگجوؤں کو ہوائی فائرنگ کرتے دیکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان پر افغان طالبان کے قریب ہونے کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے پاکستانی کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے بھی کابل کا دورہ کیا اور کہا جا رہا ہے کہ ان کی طالبان رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

اس حوالے سے پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کے حالیہ دورہ افغانستان کا مقصد غیر رسمی فریم ورک بنانا تھا۔

فواد چوہدری نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینے والے افغان طالبان کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ وہ بزور طاقت نہیں آئے اور نہ ہی وہاں کوئی لڑائی ہوئی ہے۔

گذشتہ ماہ طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے ملک میں کچھ شہروں پر چھوٹے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں جو 20 سال پہلے والے سخت گیر طالبان کی واپسی پر خوف زدہ ہیں۔

مزار شریف میں پیر کو خواتین کا ایک ایسا مظاہرہ ہوا، جبکہ گذشتہ ہفتے ہرات میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا۔


طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں وقت لگے گا: امریکہ

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈیلاویئر میں چھٹیاں گزارنے کے بعد پیر کی شب وائٹ ہاؤس پہنچنے پر صدر جو بائیڈن سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’کیا وہ طالبان کی حکومت تسلیم کریں گے،‘ جس پر امریکی صدر نے جواب دیا: ’اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔‘

رپورٹر نے صدر بائیڈن سے یہ سوال بھی پوچھا کہ ’دیگر ملکوں میں پھنسے افغانوں‘ کا کیا ہوگا، جو طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی ملک سے فرار ہوگئے تھے، لیکن بائیڈن نے یہ سوال نہیں سنا۔

امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب طالبان نے پیر (چھ اگست) کو افغان صوبے پنج شیر کو فتح کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جہاں احمد مسعود کی سربراہی میں این آر ایف نامی محاذ طالبان کے خلاف برسر پیکار تھا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اب پورا ملک ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ جلد ہی نئی حکومت کا اعلان کریں گے، تاہم انہوں نے کوئی تاریخ نہیں بتائی۔

دوسری جانب پنج شیر میں مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود نے اپنے بیان میں افغان عوام سے پورے افغانستان میں طالبان کے خلاف ملگ گیر ’قومی بغاوت‘ شروع کرنے کو کہا۔

فیس بک پر جاری کیے جانے والے آڈیو پیغام میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ ’آپ جہاں کہیں بھی ہیں، باہر یا اندر، میں آپ سے آزادی، وقار اور ہمارے ملک کی کامیابی کے لیے کہتا ہوں کہ ملک گیر قومی بغاوت کا آغاز کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا