’اگر میری کبھی شادی ہوئی تو اس میں کوئی موسیقی نہیں ہوگی‘

بے خوابی، ڈراؤنے خواب، دل کی تیز دھڑکن اور جارحیت- آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر لڑائی کو ایک سال ہوگیا، لیکن دونوں اطراف کے فوجی آج بھی نفسیاتی مسائل میں گھرے ہیں۔

بے خوابی، ڈراؤنے خواب، دل کی تیز دھڑکن اور جارحیت- آذربائیجان کے آصف محرموف دو سابق سوویت حریفوں کے درمیان ایک جنگ میں لڑنے کے ایک سال بعد بھی نفسیاتی زخموں سے نبرد آزما ہیں۔

گذشتہ موسم خزاں میں چھ ہفتوں تک آصف کے ملک آذربائیجان نے پڑوسی ملک آرمینیا سے ناگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر کنٹرول کے لیے جنگ کی، جس میں ساڑھے چھ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

20 سالہ آصف دونوں اطراف کے ہزاروں سابق فوجیوں میں شامل ہیں جو پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) سے متاثر ہیں لیکن پدرسری معاشرے کی وجہ سے ذہنی صحت کے لیے مدد لینے سے کتراتے ہیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان اپنے سابق فوجیوں کے لیے نفسیاتی دیکھ بھال تک رسائی کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، جس سے جنگجو سابق فوجیوں کو اپنے کمزور نظر آنے کے خوف سے نکلنے میں مدد مل رہی ہے۔

لیکن ہر متاثرہ فوجی تک پہنچنے کا چیلنج بہت بڑا ہے۔ بے خوابی اور دل کی تیز دھڑکن کی علامات رکھنے والے آصف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ کو ایک سال گزر چکا ہے لیکن تناؤ ابھی باقی ہے۔

’میرا مزاج بگڑ گیا ہے۔ جب میں کسی کو کچھ ایسا کہتا سنوں جو مجھے پسند نہیں، تو میرا دل چاہتا ہے کہ اسے مار دوں۔ یہ میرے کنٹرول سے باہر ہے۔‘

دونوں ممالک میں ماہر نفسیات نے نفسیاتی علاج کی پسماندہ ثقافت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پی ٹی ایس ڈی سے متاثرہ سابق فوجیوں کی مدد کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

آرمینیا کے دارالحکومت یریوان میں انٹرا نفسیاتی مرکز کے ڈاکٹر خچاتور گیسپرین نے بتایا کہ صرف ایک چوتھائی جنگی فوجی علاج کروانے پر راضی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’معاشرے کو سکھایا جانا چاہیے کہ ماہر نفسیات کے پاس جانے میں کوئی شرم نہیں، یہ معمول کی بات ہے۔‘

جنوری میں آذربائیجان نے تمام بڑے شہروں میں سابق فوجیوں کے لیے نفسیاتی بحالی کے مراکز قائم کیے ہیں۔

ماہر نفسیات سبینا رشیدوا نے کہا کہ اس کے بعد سے نفسیاتی علاج کے خواہاں سابق فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں یہ مرکز ہر ہفتے تقریباً 50 سابق فوجیوں کو دیکھ رہا ہے، جنہیں سائیکو تھراپی اور ادویات پر رکھا جاتا ہے۔

سبینا کی ساتھی نرگیز حسینووا نے کہا کہ متاثرہ فوجیوں میں جارحانہ پن، بے خوابی اور بے حسی عام ہے۔

آصف ان لوگوں میں شامل تھے جن کا علاج کیا گیا۔ پچھلے سال 27 ستمبر کو جھڑپیں شروع ہونے کے بعد آصف کی اپنی پہلی رات آرٹلری فائر کے سائے میں گزری۔

آصف کی ٹیم ایک سٹریٹجک پہاڑی چوٹی پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی لیکن ان کے سر میں چوٹ آئی اور ان کا کیپٹن ہلاک ہوگیا۔

آصف نے بتایا: ’ہم نے انہیں زمین پر لیٹے دیکھا اور ان کا خون بہہ رہا تھا۔’ آصف نے سر میں چوٹ اور PTSD کے علاج کے لیے ہسپتال میں پانچ ماہ گزارے۔

انہوں نے اپنے کیپٹن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’میں اکثر انہیں اپنے خوابوں میں دیکھتا ہوں۔ میں اکثر اپنے ساتھی فوجیوں کو خوابوں میں دیکھتا ہوں۔ وہ چیخ رہے ہیں، مجھے پکار رہے ہیں۔‘

آرمینیا میں بھی حکومت نے سابق فوجیوں، سابق جنگی قیدیوں، مرنے والوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے بحالی مراکز کا ایک ایسا ہی نیٹ ورک شروع کیا ہے۔

پروگرام کوآرڈینیٹر اینڈرینک ہاکوبیان نے بتایا کہ انہیں امید ہے کہ 10 ہزار لوگ بحالی کی ان خدمات سے فائدہ اٹھائیں گے۔

ہاکوبیان نے کہا کہ جنگ میں کوئی جیتنے یا ہارنے والا نہیں ہوتا۔ ’آرمینیا اور آذربائیجان نے جنگ کے نتیجے میں یکساں طور پر نقصان اٹھایا۔ ہم سب کے لیے نفسیاتی بحالی کا راستہ طویل ہے۔‘

ڈیوڈ سٹیپانیان کو بھی اسی طویل راستے کا سامنا ہے، جو اپنے پہلے دن کی لڑائی میں اس وقت موت سے بچ گئے جب ایک آذربائیجانی شیل نے ایک کار کو اڑا دیا جس سے وہ نکلے تھے۔

21 سالہ سالہ ڈیوڈ جنگ میں ایک ماہ سے بھی کم وقت میں زخمی ہوئے اور انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ سنائپر کی گولی ان کے دل سے کچھ ملی میٹر کے فاصلے پر لگی۔

گولی اب بھی ان کے سینے میں موجود ہے اور ان کا پورا جسم داغ دار ہے لیکن ان کا اصل مسئلہ وہ نفسیاتی زخم ہے جس سے وہ اب تک لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ کئی مہینوں سے ٹھیک طرح سو نہیں سکے اور جنگ کی یادیں ان کے خوابوں اور جاگنے کے اوقات میں آتی ہیں۔ ’میں خاندان یا دوستوں کے ساتھ بات نہیں کرسکا اور آخر کار طبی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ جنگ کی بدترین یادیں وہ لمحات ہیں جب آپ اپنے زخمی دوست کو قریب سے دیکھتے ہیں لیکن دشمن کی بھاری گولہ باری کی وجہ سے اس کی مدد نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے کہا کہ آٹھ سائیکو تھراپی سیشنوں سے انہیں کچھ سکون ملا ہے اور اب وہ رات میں زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے سو سکتے ہیں۔

تاہم ہر کوئی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ آذربائیجان کے سابق تجربہ کار فوجی آصف اب باکو کے باہر تیل کی تنصیب پر سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انہیں اپنی زندگی روشن نظر نہیں آتی۔ انہوں نے بتایا: ’اگر میں نے کبھی شادی کی تو اس کی تقریب میں کوئی موسیقی نہیں ہوگی۔‘

’میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو کبھی شادی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک جنگ میں مارے گئے۔‘

ادھر تقریباً تین ہزار آرمینائی باشندوں نے اتوار کو دارالحکومت یریوان میں مارچ کیا اور جنگ کے متاثرین کو یاد کیا۔

سابق صدر رابرٹ کوچاریان کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے تنازعے کی پہلی برسی کے موقعے پر شہر کے مرکز سے ایربلور فوجی قبرستان کی طرف روشن مشعل مارچ کیا۔

مارچ کرنے والوں میں شامل 39 سالہ اینا کارپتیان نے بتایا: ’ہم اپنے مرنے والے فوجیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، انہوں نے مادر وطن کے لیے اپنی جوان جانیں دیں۔‘

پیر کی صبح آرمینیا اور آذربائیجان دونوں میں چھ ہفتوں کی جنگ کے متاثرین کی یاد میں ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا