ڈی جی خان: محبت کی شادی پر دو قبائل میں خونریزی

محقق ڈاکٹرعباس برمانی کے مطابق ان قبائل میں پسند کی شادی کو سیاہ کاری قرار دے کر لڑکی اور لڑکے کو قتل کرنے یا لڑکی کو فروخت کر دینے کی قدیمی روایت ابھی تک برقرار ہے۔

گذشتہ ماہ پنجاب کے پولیس حکام نے قبائلی علاقوں کے سرداروں سے ملاقات کر کے یہاں تھانوں اورپولیس چوکیوں سمیت اہلکاروں کو گشت کے لیے تعینات کرنے پر راضی کرنے کی کوشش بھی کی تھی(تصویر: بشکریہ حسنین خان)

 بلوچستان اورپنجاب کے بارڈر پر بواٹہ کے ایک طرف بسنے والے مبینہ طور پر کھیتران قبیلہ کے جوڑے نے پسند کی شادی کی اور پنجاب کی حدود میں آباد لغاری قبیلہ میں پناہ لے لی۔ صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے میں ’پسند کی شادی جرم بن گئی۔‘

جوڑے کو پناہ دینے پر کھیتران قبیلے کے مسلح افراد نے مبینہ طور پر لغاری قبیلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں چارافراد ہلاک ہوگئے۔

جب کہ پسند کی شادی کرنے والاجوڑا جان بچا کر نکل گیا۔ اس کے جواب میں لغاریوں نے کھیتران قبیلے پر جوابی حملہ کر کے مبینہ طور پردو افراد قتل کر دیے جبکہ پانچ پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے۔

دونوں طرف سے حملوں کے پولیس تھانہ رکنی میں مقدمات تو درج کر لیے گئے لیکن کارروائی یا امن وامان قائم نہیں ہوسکا۔

دوسری جانب قبائلی سرداروں نے دونوں قبیلوں میں صلح کی کوششیں شروع کر دیں اور فوری طور پر دونوں فریقین کو فائر بندی کی درخواست کی ہے مگر ابھی تک جرگے کا اہتمام نہیں ہوسکا۔

محقق ڈاکٹرعباس برمانی کے مطابق ’ان قبائل میں پسند کی شادی کو سیاہ کاری قرار دے کر لڑکی اور لڑکے کو قتل کرنے یا لڑکی کو فروخت کر دینے کی قدیمی روایت ابھی تک برقرار ہے۔‘

واقعہ پیش کیسے آیا؟

لغاریوں کی فائرنگ سے کھیتران قبیلے کے ہلاک ہونے والے عبدالستار کے بھائی اور مدعی مقدمہ عبدالقیوم نےانڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ماہ قبل کھیتران قبیلہ جو بلوچستان کے علاقہ رکنی میں رہائش پذیر ہے، ان کے ایک لڑکے نے لڑکی سے پسند کی شادی کی اور دونوں نے جان بچانے کے لیے بھاگ کر پنجاب کے علاقہ بواٹہ جو بلوچستان اور پنجاب کا بارڈر ہے وہاں لغاری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے اپنے رشتہ دار گھرانے میں پناہ لے لی۔‘

’جب کھیتران قبیلہ کے لڑکی والوں کو اطلاع ملی تو انہوں نے گذشتہ ہفتے مسلح ہو کر جوڑے کو پناہ دینے والے گھرانے پر حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص اس کی بیوی، بیٹی اور بچہ ہلاک ہوگئے۔ جب کہ پسند کی شادی کرنے والا جوڑی گھر کی دوسری طرف تھے لہذا وہ بچ گئے اور وہاں سے نکل گئے۔‘

عبدالقیوم کے بقول اس واقعہ پر تھانہ رکنی میں مقدمہ درج کرایا گیا تو پولیس کو معلوم ہوا کہ حملہ آور کھیتران سردارعبدالرحمن کے قریبی لوگ تھے۔ لہذا پولیس نے چار ملزم گرفتار کر لیے جنہیں اسی دن عبدالرحمن کھیتران پولیس حکام سے بات کر کے رہا کرا کے لے گئے۔

ان افراد کی رہائی پر لغاری قبیلہ نے بواٹہ میں بین الصوبائی شاہراہ جو پنجاب اور بلوچستان کو ملاتی ہے، ٹائر جلا کر بلاک کر دی اور مسلح ہو کر کھیتران قبیلہ کی گاڑیوں کی آمدورفت روک دی۔ سڑک کھلوانے کے لیے کھیتران برادری کے عبدالستاراور دیگر افراد پولیس کے ہمراہ مزاکرات سے شاہراہ کھلوانے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ مظاہرین کے پاس پہنچے تو لغاری برادری کے لوگ مشتعل ہوگئے انہوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں عبدالستار سمیت دو افراد ہلاک جبکہ پانچ پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہو گئے۔

فائربندی کیسے ہوئی؟

اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے ٹرائبل ایریا کے سرداروں نے مشترکہ جرگے کی کوشش شروع کی ہے۔

مقامی صحافی حسنین خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس علاقہ میں کھیتران اور لغاری بڑے قبائل ہیں۔ اس لیے ان میں کشیدگی ختم نہ ہونے کی صورت میں امن و امان بحال نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ و امور ٹرائبل ایریاز سینیٹر سرفراز خان بگٹی اور سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی نے اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے گرینڈ جرگے کے لیے یہاں کے بڑے سرداروں سےرابطہ کیے ہیں۔ آج بروز اتوار جرگہ ہونا تھا لیکن قبائل روایات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کا سوگ دس روز تک منائے جانے کے بعد جرگہ منعقد کیے جانے کا امکان ہے۔‘

حسنین کے بقول ’جرگہ کے لیے لغاریوں کے سردار اویس خان لغاری، کھیتران قبیلہ کے سردار عبدالرحمن کھیتران ، بزدار قبیلہ کے سردار وزیر اعلی پنجاب کے بھائی جعفر خان بزدار، قیصرانی قبیلہ سے میر بادشاہ قیصرانی اور کھوسہ قبیلہ سےسردار دوست محمد کھوسہ کو مدعو کیا گیا تھا۔

اس معاملہ پر بات کرنے کے لیے سردار عبدالرحمن کھیتران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’فائر بندی کرا دی گئی ہے تاکہ مزید امن وامان خراب نہ ہو مگر جرگے سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ امید ہے معاملہ بات چیت کےزریعے حل کرانے کی کوشش کامیاب ہوجائے گی۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ لغاریوں کا الزام ہے کہ آپ نے ملزم رہا کرائے کیا یہ درست ہے تو انہوں نے تردید کرتے ہوئےفون کاٹ دیا۔

حسنین کے مطابق ابھی تک فائر بندی ہے لیکن حالات معمول پر نہیں آئے۔ دوسری جانب پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے پر لغاری برادری بھی ملزم پارٹی بن چکی ہے اس لیے اب کسی تیسرے فریق کی مداخلت سے ہی معاملہ حل ہو سکتا ہے۔

پنجاب کے ٹرائبل ایریاز میں بسنے والے قبیلے:

ڈیرہ غازی خان کے محقق اور ریسرچر ڈاکٹر عباس برمانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کےقبائلی علاقوں میں بسنے والے قبائل کو تمن کہا جاتا ہے۔ جن میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے نواحی علاقے شامل ہیں یہ ایک بڑی پٹی ہے جس میں پہاڑ بھی ہیں اور میدانی علاقے بھی شامل ہیں۔ ویسے تو یہ علاقے پسماندہ ہی ہیں کیونکہ یہاں شہروں کی طرح نہ سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی قانون کی عملداری اس طرح ہوتی ہے جیسے شہری علاقوں میں قائم ہے۔ مختلف قبائل کی آبادی کم و بیش چار لاکھ کے قریب ہے ان قبائل کے متعدد لوگ ملازمت یا مزدوری کے لیےشہری علاقوں کا رخ بھی کرتے ہیں اور وہیں آباد ہوجاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عباس برمانی نے بتایا کہ ’ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقوں میں جغرافیائی نشاندہی کے مطابق پہلے تمن قیصرانی قبیلہ، بزدار پھر لنڈ اور اس کے بعد کھوسہ اور اس کے ساتھ لغاری قبیلہ آباد ہے۔

 دوسری طرف گورچانی، پھردریشک اور مزاری آباد ہیں۔ شمالی اور جنوبی علاقوں میں مقیم آبادیاں ہیں جو پہاڑوں میں بھی آباد ہیں۔

اگر پنجاب سے بلوچستان کے بارڈر کی بات کریں تو رکنی بلوچستان کا پنجاب سے جاتے ہوئے پہلا شہر ہے جہاں کھیتران قبیلہ آباد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ویسے تو ان علاقوں میں قبیلوں کی آبادی کے لحاظ سے لوگ آباد ہیں مگر یہ ایک سے دوسرے علاقوں تک بھی پھیلتے جارہے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہروں میں جانے والے وہیں روزگار تلاش کر کے رہنے لگ جاتے ہیں اس طرح اب ان قبیلوں کے افراد ملک بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔‘

قبیلوں کی روایات اور امن وامان کی صورتحال:

پنجاب کے ان قبائلی علاقوں میں روایات کے مطابق زندگی گزاری جاتی ہے جن کی پاسداری یہاں بسنے والوں کے لیے لازمی ہے۔

ان کے اپنے رسم ورواج اور ثقافت ہے جس میں لباس،خوراک، تعلیم وتربیت اور رشتے قائم کرنے کے طریقے شامل ہیں۔

عباس برمانی کے مطابق ان قبائل میں سرداروں کی بات کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں جب ملک کے تمام شہریوں کو ایک جیسے شہری حقوق حاصل ہیں لیکن یہاں قبائل کے رسم ورواج سزا وجزا پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا واقعہ پیش آئے اور حکومتی سطح کی مداخلت ہو تو تب پھر ریاستی قوانین حرکت میں آتے ہیں۔

جیسے گذشتہ دنوں راجن پور کے لادی گینگ کے خلاف آپریشن حکومتی سطح کا فیصلہ تھا۔ اس میں قبائل کے سرداروں کی مداخلت پھر بھی ناگزیر رہی۔ انہی کے ذریعے آپریشن میں پولیس کو کامیابی حاصل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں بارڈر ملٹری فورس اور پولیٹیکل اسسٹنٹ کے زریعے ان کے معاملات چلانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ ایک پولیٹیکل اسسٹنٹ راجن پور جبکہ ایک ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہاں مقامی سرداروں کی مداخلت اور ان کے اختیار کوچیلنج کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ پنجاب کے پولیس حکام نے قبائلی علاقوں کے سرداروں سے ملاقات کر کے یہاں تھانوں اورپولیس چوکیوں سمیت اہلکاروں کو گشت کے لیے تعینات کرنے پر راضی کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

لیکن ان سرداروں نے ایسا کرنے میں ساتھ دینے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ پنجاب کے شہروں میں جہاں پولیس تھانے، پیٹرولنگ پولیس اور ہیلپ لائن تک موجود ہیں وہاں ہونے والے جرائم کا قبائلی علاقوں کے جرائم کی تعداد سے موازنہ کریں تو یہاں شرح بہت کم ہے۔

لہذا ہم اس طرح کی پولیس مداخلت سے بہتر نظام چلا رہے ہیں جہاں لوگوں کو فوری انصاف اور امن وامان سے رہنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

عباس برمانی نے بتایا کہ امن وامان کے لحاظ سے جو قبائلی علاقوں میں روایات قائم ہیں ان کی خلاف ورزی پر تو امن وامان خراب ہوتا ہے لیکن قبائلی علاقوں میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کے بقول ڈیرہ غازی خان کا تفریحی مقام فورٹ منرو ہے جہاں دور دراز سے سیاح آتے ہیں یہ لغاری قبیلہ کا علاقہ ہے۔ یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں دن رات گاڑیاں یا موٹر سائیکل تک باہر کھڑے رہیں یا خواتین اکیلی گھومتی رہیں نہ کوئی چوری کر سکتا ہے نہ خواتین سے کوئی بدتمیزی ممکن ہے۔ لہذا ان علاقوں میں جہاں مسائل ہیں وہاں کئی اصول ایسے طے ہیں جہاں جان و مال کا مکمل تحفظ بھی فراہم کرنا مقامی قبیلے کی ذمہ داری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان