’آپ رہنے دیں، میں بِل ادا کروں گا،‘ مگر کیوں؟

ہمارے معاشرے میں بہت سے مردوں کو لگتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے عورت کا بِل ادا کرنا ان کی مردانگی کے خلاف ہے۔

فیمینسٹوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ عورت کو برابری کا رتبہ پانے کے لیے اپنا بِل خود ادا کرنا چاہیے (پکسا بے)

ہمیں اپنے ان دوستوں سے سخت چِڑ محسوس ہوتی ہے جو ہر دفعہ ملنے پر زبردستی بِل ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم چاہے انہیں جتنا کہیں کہ دیکھیں ہم ادائیگی کر سکتے ہیں، یا چلیں یہ بھی نہیں منظور تو اسے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

وہ ہماری ایک نہیں سنتے اور سارا بِل خود ہی ادا کرکے دم لیتے ہیں۔ ’نہ نہ بالکل نہیں۔ آپ رہنے دیں۔ میں پیسے دوں گا یا دوں گی۔‘

ان میں سے کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ چونکہ عمر میں بڑے ہیں تو بِل ادا کرنا ان کا فرض بھی بنتا ہے اور حق بھی۔ کچھ صرف معاشرتی طور پر خود کو اچھا ثابت کرنے یا سمجھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

مردوں کو لگتا ہے کہ معاشرتی طور پر بِل ادا کرنا ان کا فرض ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے عورت کا بِل ادا کرنا ان کی مردانگی کے خلاف ہے۔

ایسے دوستوں کے ساتھ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگلی ملاقات میں بِل ادا کرکے حساب برابر کر دیا جائے۔ سب کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اگلی ملاقات پر ہلکی سی مزاحمت کے بعد بِل ادا کرنے کی اجازت مل ہی جاتی ہے۔

پھر ہم سوچتے ہیں کہ اس فضول لڑائی کی ضرورت کیا تھی؟

دوسری طرف ہمیں ان لوگوں سے بھی چِڑ محسوس ہوتی ہے جو ہمارے بِل پکڑنے پر چوں بھی نہیں کرتے۔ اپنا فون نکال کر اس پر مصروف ہو جاتے ہیں یا ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ جو بہت ہی ڈھیٹ واقع ہوں وہ مسکرا مسکرا کر ہمیں ہی دیکھتے رہتے ہیں۔

ہم ایسے لوگوں کو کچھ کہہ بھی نہیں پاتے۔ چپ چاپ بٹوہ نکالتے ہیں اور بِل ادا کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ ان سے نہ ہی ملیں۔

ہمارے بہت کم دوست ایسے ہیں جو ان دونوں زمروں میں نہیں آتے۔ ان کے ساتھ ملاقات بہت آسان اور خوشگوار رہتی ہے۔ ہم اپنی پسند کی جگہوں پر جاتے ہیں۔ جو بھی خرچہ ہوتا ہے وہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کے ساتھ ہم نے اس بارے میں بات کی ہوئی ہے اور کچھ کے ساتھ بغیر بولے ہی سیٹنگ بنائی ہوئی ہے۔ اس طرح نہ ہم پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ ان پر۔

پہلی کیٹیگری والے لوگوں کے ساتھ ہمیں اپنے سر پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ملنا ایک حساب چکانے کے لیے ہوتا ہے۔ نہ مل سکیں تو اپنا آپ خود غرض سا محسوس ہوتا ہے۔ ملنے پر سارا وقت ذہن میں خود کو پیسوں کے وقت ہونے والی بحث کے لیے تیار کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے ذہن میں بھی شاید یہی ہوتا ہے۔ اکثر کے ساتھ یہ بحث اوپری اوپری سی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے وہ بھی چاہتے ہوں کہ اس دفعہ ہم ہی رقم ادا کریں کیونکہ پچھلی بار انہوں نے ادا کی تھی لیکن بحث پھر بھی کرتے ہیں کہ رواج ہے۔ پھر ہارنے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں۔

ڈیٹنگ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ امریکی جریدے ’فوربز‘ کے ایک آرٹیکل کے مطابق امریکہ میں زیادہ تر آدمی پہلی ڈیٹ اور رشتہ آگے بڑھنے کی صورت میں زیادہ تر اخراجات خود ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں عورت سے پیسے لیتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق وہ مرد ایسا کسی ’بدلے‘ کی توقع میں نہیں کرتے۔ یہ ان کے لیے بس ایک اچھا طریقہ ہے بالکل ویسے ہی جیسے عورت کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولنا یا اسے کرسی پر بیٹھنے میں مدد دینا۔

فیمینسٹ اس بات پر دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عورت کو برابری کا رتبہ پانے کے لیے اپنا بِل خود ادا کرنا چاہیے۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مرد چونکہ عورتوں کی نسبت زیادہ پیسے کماتے ہیں اور ان کے اخراجات بھی گلابی ٹیکس کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں تو مرد کے بِل ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

گلابی ٹیکس کو اس مثال سے سمجھیں۔ پاکستان میں کسی آدمی نے چائے پینی ہو تو وہ کسی بھی قریبی کھوکھے سے سستی اور بہترین چائے پی سکتا ہے۔ عورتیں کھوکھے پر جا کر چائے نہیں پی سکتیں۔ چلی بھی جائیں تو وہاں موجود تمام مردوں کی نظریں ان پر جم جاتی ہیں۔

انہیں مجبوراً چائے پینے کے لیے فینسی ریستورانوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں چائے کا کپ کسی بھی کھوکھے کی نسبت کئی گنا زیادہ قیمت پر ملتا ہے۔ اس اضافی رقم کو گلابی ٹیکس کہا جاتا ہے۔

ہمارے مطابق لوگوں کو آپس میں اس بارے میں کھل کر بات کرنی چاہیے۔ مشکل موضوع ہے لیکن انتہائی اہم۔ بہت سے لوگ پیسوں کی وجہ سے ہی دوستیاں یا رشتے ختم کرتے ہیں۔ اگر وہ تھوڑی سی شرم کم کر کے اس بارے میں بات کرلیں تو شاید انہیں اپنی دوستی یا رشتہ نہ ختم کرنا پڑے۔ 

جن افراد نے آپس میں کہیں ملنا ہو یا مل کر کچھ ایسا کرنا ہو جس میں مالی خرچ ہونا متوقع ہو، وہ اس بارے میں پہلے ہی بات کر کے تمام معاملات طے کرسکتے ہیں۔ خرچ کس طرح تقسیم ہوگا، کون زیادہ پیسے دینا چاہتا ہے اور کیوں دینا چاہتا ہے، دوسرا فریق اس بارے میں کیا سوچتا ہے۔ یہ تمام معاملات پہلے ہی طے کر لینے چاہییں۔

اپنا بھرم قائم رکھنے کے چکر میں اپنے بجٹ کو دل پر پتھر رکھتے ہوئے تباہ کرنے میں ہمیں تو کوئی عقل مندی نظر نہیں آتی۔ آپ کو آتی ہے تو بتا دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ