افغانستان کے لیے امداد کی جلد بحالی کا کوئی امکان نہیں: عالمی بینک

عالمی بینک کے سربراہ ڈیوڈ ملپاس نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورت حال میں امداد کا کوئی نظام نہیں اور اس کے جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔

چھ نومبر کو کابل میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے اشیائے خوردونوش کی تقسیم کے موقع پر لی گئی ایک تصویر (اے ایف پی)

عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس نے عندیہ دیا ہے کہ ادارے کی طرف سے افغانستان کے لیے براہ راست امداد کی جلد بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی بینک کے سربراہ نے پیر کو سینٹر برائے سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں ہونے والی ایک گفتگو میں کہا: ’میں اپنے ادارے کو معیشت کی مکمل تباہی کے ماحول میں کام کرتا نہیں دیکھ رہا۔ درپیش مسائل میں سے ایک ادائیگی کا نظام ہے۔ موجودہ حکومت جو بھی کر رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے رقم کی فراہمی حقیقت میں جاری رکھنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں۔‘

عالمی بینک نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سلامتی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر افغانستان کی امداد روک دی تھی۔

بینک نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کر رہا ہے۔ 

عالمی بینک کی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں بینک کے دو درجن سے زیادہ ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اور وہ 2002 سے 5.3 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے جو زیادہ تر گرانٹس کی شکل میں تھے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی افغانستان کی امداد معطل کر چکا ہے اور نو ارب ڈالر تک طالبان کی رسائی روک دی گئی ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ امریکہ میں ہے۔

ملپاس کا کہنا تھا کہ وہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں جو اب بھی افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔

طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود امریکہ افغانستان پر عائد پابندیوں میں بعض پر استثنیٰ دے چکا ہے تا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی جاری رہ سکے۔

افغانستان میں اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے سماجی اور معاشی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ملک کے بیرون ملک اثاثے بھی منجمد ہیں جبکہ عالمی امداد اور مالی معاونت بند ہونے کی وجہ سے خشک سالی، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملازمتیں ختم ہونے کے اثرات مزید گھمبیر ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی فلاحی اداروں نے افغانستان میں شدید انسانی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے، خاص طور پر غذائی قلت کا۔ 

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان میں پانچ سال کی عمر تک کے لاکھوں بچوں کو زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والی شدید غذائی قلت کے پیش نظر علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ 33 لاکھ بچے شدید نوعیت کی غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔

اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ترجمان بابر بلوچ روئٹرز کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ اگر سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی مدد نہ کی گئی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔

بابر بلوچ نے کہا: ’افغانستان کی موجودہ آبادی چار کروڑ ہے اور ان میں سے آدھے یعنی تقریباً دو کروڑ افراد کا گزر بسر 15 اگست کے واقعات سے پہلے بھی امداد پر تھا۔‘

 بقول بابر بلوچ: ’صرف 2021 میں تنازعے کی وجہ سے بے گھر افراد کی تعداد سات لاکھ ہے۔ مجموعی طور پر بے گھر افراد کی تعداد 35 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے پاس سردیوں سے پہلے بے آسرا اور مجبور افغانوں کی امداد کے لیے بہت کم وقت ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ان کی جلد از جلد مدد نہ کی گئی تو نتائج بہت بھیانک اور پریشان کن ہوں گے۔‘

طالبان حکومت نے جہاں بھوک اور افلاس سے نمٹنے کے لیے بے رورگار افراد کے لیے ’کام کے بدلے گندم‘ کا پروگرام متعارف کروایا ہے، وہیں عالمی برادری پر بھی زور دے رہے ہیں کہ افغانستان کے اثاثوں کو غیر منجمد کیا جائے تاکہ عوام کی امداد ہو سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا