جنوبی افریقہ: کرونا کے ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک ویریئنٹ کی تشخیص

سائنس دانوں کے مطابق وائرس کی یہ قسم کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور یہ ویکسینز کے مقابلے میں بھی زیادہ مزاحمت کر سکتی ہے۔

18 فروری 2021 کی اس تصویر میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن کے نواح میں ایک نرس ویکسین لگوانے سے قبل درجہ حرارت چیک کروا رہی ہے(تصویر: اے ایف پی فائل)

خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک میں کوویڈ 19 کی ایک نئی قسم کی تشخیص کی ہے جس کے اندر میوٹیشنز کی بڑی تعداد موجود ہے۔

سائنسدانوں نے اس کی وجہ کرونا (کورونا) کیسز میں بڑھتے ہوئے اضافے کو قرار دیا ہے۔

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس نئے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے افریقہ کو بڑی مقدار میں ویکسین کی ہنگامی بنیاد پر ضرورت ہے۔

برطانیہ کے ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ کے جینومکس انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جیفری بیرٹ نے کہا کہ ویکسینز بھیجنے کا وقت اب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’نئے ویریئنٹ کو پھیلنے سے روکنے کے علاوہ تخلیقی انداز میں متاثرہ علاقوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوبی افریقہ میں رواں ماہ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے کرونا کے کیسز کی تعداد میں 10 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس کے بعد برطانیہ نے جنوبی افریقہ اور پانچ دیگر افریقی ممالک سے آنے والی تمام پروازوں کو معطل کر دیا ہے۔ ان ممالک میں نمیبیا، لیسوتھو، اسواٹنی، زمبابوے اور بوٹسوانا شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانوی پابندی پر جنوبی افریقہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی پروازوں پر پابندی عائد کرنا ’جلدی میں کیا جانے والے والا فیصلہ ہے۔‘

وزیر خارجہ نیلیڈی پینڈور کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’ہماری فوری تشویش اس بات پر ہے کہ اس فیصلے سے دونوں ممالک کی سیاحت کی صنعتوں اور کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’جنوبی افریقہ برطانوی حکام کے ساتھ بات چیت کرے گا تاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکیں۔‘

نئی قسم ڈیلٹا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے

سائنس دانوں کے مطابق وائرس کی یہ قسم کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور یہ ویکسینز کے مقابلے میں بھی زیادہ مزاحمت کر سکتی ہے۔

وائرولوجسٹ ٹولیو ڈی اولیورا نے ہنگامی بنیادوں پر بلائی جانے والی ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ہم نے وائرس کی ایک نئی قسم کی تشخیص کی ہے جو کہ جنوبی افریقہ کے لیے فکر کی بات ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وائرس کی اس قسم کا سائنسی نام (B.1.1.529) ہے اور اس کے اندر میوٹیشنز کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

ان کے مطابق عین ممکن ہے کہ عالمی ادارہ صحت اس قسم کو کرونا وائرس کے یونانی زبان کے حروفِ تہجی میں سے کوئی نام دے جیسا کہ دوسرے ویریئنٹس کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے وائرس کی یہ قسم کیسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔‘

ڈی اولیورا کے مطابق کرونا وائرس کی یہ قسم افریقی ملک بوٹسوانا اور ہانگ کانگ میں بھی سامنے آئی ہے جہاں ایسے مسافروں میں اس کی تشخیص ہوئی ہے جو جنوبی افریقہ سے یہاں پہنچے تھے۔

دوسری جانب عالی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور جمعے کو ہونے والے اجلاس میں اس بات تعین کیا جائے گا کہ کیا وائرس کی اس قسم کو ’تشویش کا باعث‘ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ’ابتدائی جائزہ میں سامنے آیا ہے کہ وائرس کی اس قسم میں میوٹیشنز کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘

ایک بڑا خطرہ

جنوبی افریقہ کے وزیر صحت جو فاہلا کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ قسم ’شدید تشویش کا باعث‘ ہے اور اس کی وجہ سے کیسز کی تعداد میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے جو اسے ایک بڑا خطرہ ظاہر کرتی ہے۔

جنوبی افریقہ میں بدھ کو کرونا کے مزید 1200 کیسز کی تصدیق کی گئی ہے جو کہ اس ماہ کے آغاز میں محض 106 تھے۔

وائرس کی نئی قسم کی تشخیص سے قبل حکام نے دسمبر کے وسط میں جنوبی افریقہ میں کرونا کیسز کی چوتھی لہر کے آغاز کی پیش گوئی کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کے زیر انتظام نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی) نے کہا کہ ملک میں نئی قسم کے 22 مثبت کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

گذشتہ سال کرونا وائرس کا بیٹا ویریئنٹ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آیا تھا۔ گو کہ اس کے کیسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ ڈیلٹا ویریئنٹ رہا ہے جو سب سے پہلے بھارت میں سامنے آیا تھا۔

افریقہ میں سب سے زیادہ کرونا کیسز جنوبی افریقہ میں ہیں جہاں تقریباً 29 لاکھ کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 89 ہزار 657 ہو چکی ہے۔

دس میوٹیشنز

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی قسم میں کم از کم 10 میوٹیشنز ہیں، جب کہ ڈیلٹا کی میوٹیشنز کی تعداد دو اور بیٹا کی تین تھی۔

اس حوالے سے ورچوئل اجلاس میں ڈبلیو ایچ او کے لیے کوویڈ 19 پر تکنیکی کام کرنے والی ماہر ماریا فان کیرخو کا کہنا ہے کہ ’تشویش ناک بات یہ ہے کہ جب آپ کے سامنے اتنی زیادہ میوٹیشنز ہوتی ہیں تو یہ وائرس کے رویے پر بھی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ ہمیں چند ہفتے لگیں گے جس میں ہم سمجھ سکیں کہ وائرس کی یہ قسم ممکنہ ویکسین پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وائرس کی یہ قسم کئی ایسی میوٹیشنز رکھتی ہے جنہیں ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔‘

جنوبی افریقہ میں ویکسی نیشن مہم میں سست رو آغاز کے بعد اب تک بالغ افراد کی 41 فیصد تعداد کو ویکسین ایک خوراک لگائی جا چکی ہے جب کہ 35 فیصد بالغ افراد مکمل طور پر ویکسین لگوا چکے ہیں۔

یہ تعداد پورے براعظم میں ویکسین لگوانے والے افراد کی 6.6 فیصد شرح سے کافی زیادہ ہے۔

جنوبی افریقہ نے اپنی پانچ کروڑ 90 لاکھ آبادی کے 70 فیصد کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت