مہنگائی کا ایٹم بم اور اکرم کی ’زندگی آسان‘

شوکت ترین صاحب کی تقریر سن کے اکرم سوچنے لگا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے کس طرح آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ کونسا سیدھا راستہ ہے جس پر تین سال تک چلنے کے باوجود بھی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستانی محنت کش  27 اپریل 2018 کو کراچی کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ میں ایک چھکڑا  دھکیل رہا ہے(فائل تصویر: اے ایف پی)

 اکرم نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ نیپرا نے بجلی کے فی یونٹ میں چار روپے 74 پیسے اضافہ کر دیا ہے جو کہ صارفین سے دسمبر کے بلوں پر وصول کیا جائے گا۔

یہ خبر اکرم کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ اسے 2018 میں بجلی کا ماہانہ اوسط بل ایک ہزار روپے آتا تھا جو پہلے ہی دو ہزار پانچ سو روپے سےبڑھ گیا ہے۔

وہ پچھلے چھ ماہ سے بجلی کا بل جمع کروانے کے لیے اپنے بہنوئی سے ادھار لے رہا تھا۔ اب اس نے مزید رقم دینے سے انکار کر دیا ہے اور پچھلا ادھار بھی واپس مانگ رہا ہے۔ وہ سوچ رہا ہے کہ دسمبر کا بل کس طرح ادا کرے گا۔

اسی دوران شوکت ترین صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو اکرم اس امید سے سننے لگا کہ شاید بجلی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کوئی خبر سننے کو مل جائے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اندھا کیا مانگے؟ صرف دو اکھیاں۔ 

لیکن اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب شوکت ترین صاحب کو یہ تقریر کرتے ہوئے سنا کہ ’پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ اب تو میں بھی کہتا ہوں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ ہم عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈال رہے ان کی زندگی آسان کر رہے ہیں۔

اکرم سوچنے لگا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے کس طرح آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ کونسا سیدھا راستہ ہے جس پر تین سال تک چلنے کے باوجود بھی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حالات خراب ہو رہے ہوں اور آپ گھبرائیں نہیں۔

اکرم کا مسئلہ صرف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہے بلکہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی اسے پریشان کیے ہوئے ہے۔ اس نے اخبار میں پڑھا کہ پاکستان میں مہنگائی 11.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کہ پچھلے 21 ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس ماہانہ بنیادوں پر تین فیصد سے زیادہ بڑھ گیا ہےجو کہ پچھلے ساڑھے تیرہ سالوں میں ایک ماہ میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ماہانہ مہنگائی کی شرح دس فیصد سے کم ہو گی لیکن یہ اضافہ تو توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا سرکار بھی عوام سے جھوٹ بول رہی ہے یا معاشی ٹیم حالات کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہے؟

اس کی پریشانی میں اس وقت مزید  اضافہ ہوا جب اس نے پڑھا کہ ہول سیل پرائس انڈیکس میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی ماہانہ شرح  14 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

وہ سوچنے لگا کہ آمدن بڑھ نہیں رہی ، مہنگائی کم نہیں ہو رہی اور آنے والے دن بھی اچھی خبر لاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ افسوس اس بات ہے کہ ایک طرف مسائل حل نہیں ہو رہے اور دوسری طرف ہماری آواز سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ جب تک احتجاج نہ کریں، سڑکیں بند نہ کریں، حکومت کا نظام زندگی مفلوج نہ کر دیں تب تک سرکار کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اکرم اور اس جیسے کروڑوں لوگوں کے مسائل پر بات کرنے اور حالات کی سنگینی کا درست جائزہ لینے کے لیے میں نے وزرات صنعت و پیداوار میں رابطہ کیا تو سینیر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب نیشنل پرائس کنٹرول کمیٹی نے وزرات صنعت و پیداوار کو خوردنی تیل کی قیمت کم کرنے کی ہدایت کی تو یہ جواب دیا گیا کہ پچھلے سال تیل کی درآمد 35 لاکھ میٹرک ٹن تھی جو کہ موجودہ سال میں بڑھ کر 37 لاکھ ٹن تک جا سکتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ افغان بارڈر ہے۔ افغانستان کی ضرورت کا تیل بھی پاکستان سے افغانستان منتقل ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے تیل مہنگا ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کی قیمت میں کمی نہیں ہو سکتی۔‘

’اس کے علاوہ پاکستان ایڈیبل آئل ریفائنرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین رشید جان محمد کے مطابق اس سال  تیل کے بیجوں کی درآمد میں 20 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت 2.73 میٹرک ٹن آئل بیج درآمد کیے جا چکے ہیں اور دسمبر کے اختتام تک مزید 0.8 میٹرک ٹن بیج درآمد کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ حکومت نے تیل اور اس کے بیجوں کی درآمد پر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب کہ سرکار ماضی میں گھی اور تیل کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے کئی مرتبہ اعلان کر چکی ہے۔ مشیر خزانہ نے گھی اور تیل کی قیمتوں پر ٹیکس بھی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا اور گھی کی قیمتیں 390 سے بڑھ کر 400 روپے تک پہنچ گئی۔ بلکہ کچھ جگہوں پر یہ قیمت 450 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہاں بھی حکومت اپنی پالیسیوں کا بوجھ افغانستان پر ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔ جو کہ مناسب عمل نہیں ہے۔ اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے سے مسائل کا درست ادراک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ڈالر میں اضافہ ہو تو ملبہ افغانستان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ مہنگائی ہو جائے تو ذمہ داری افغانستان پر ڈال دی جاتی ہے۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کم ہو جائے تو توپوں کا رخ افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف کر دیاجاتا ہے۔

یہ اپروچ مسائل سے بھاگنے اور بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ جس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سرکار سے گزارش ہے کہ مہنگائی کا ایٹم بم پھٹنے سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے اور وزرا کو غیر سنجیدہ بیانات دینے سے باز رکھے۔ تاکہ عوامی سطح پر یہ تاثر پیدا ہو سکے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ