چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے حوالے سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے حلف نامے پر کیس اب توہین عدالت کیس نہیں بلکہ اسے اوپن تحقیقاتی کارروائی سمجھا جائے۔
عدالت میں پیر کو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حلف نامے کی خبر کا اخبار میں چھپنا اب ثانوی معاملہ ہے کیونکہ رانا شمیم مانتے ہیں کہ جو اخبار میں چھپا ہے وہ اصلی ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ اس کو توہین عدالت نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک تحقیقاتی کارروائی ہے، عدالت صرف یہ جاننا چاہتی ہے کہ ججوں پر الزام کس بنیاد پر لگایا گیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اٹارنی جنرل طبیعت ناسازی کی وجہ سے کراچی میں ہیں۔
سابق جج رانا شمیم اور ان کے وکیل لطیف آفریدی بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں فریقین کے جواب دیکھنے کے بعد انہوں نے بریف جمع کروا دیا ہے۔
رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے یہ بیان حلفی نہ کسی کو دیا ہے اور نہ اس کی تشہیر کی ہے، وہ رانا شمیم کے اور ان کے نواسے کی تحویل میں تھا یہ ویسا ہی سر بمہر یہاں عدالت پہنچا ہے۔ ’جو بھی ہے یہ اصلی یا جو بھی اب یہ یہی ہے۔‘
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اپنا بند لفافہ خود ہی کھول لیں۔ لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ ہم نے بند لفافہ کھولا تو ایک نئی تحقیق شروع ہو جائے گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کے موکل نے اس بیان حلفی سے یہ تاثر دیا کہ ہائی کورٹ کے تمام ججز سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔ ’کیا اس کورٹ کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائی جا سکتی ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ آج بیان حلفی کی بنیاد پر ابتدائی کارروائی کر لیتے ہیں باقی اٹارنی جنرل کے آنے پر کر لیں گے۔
وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی کسی کو اشاعت کے لیے نہیں دیا۔ ’رانا شمیم نے کب اس کورٹ پر کوئی انگلی اٹھائی ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس اطہر من اللہ نے جواباً کہا کہ رانا شمیم نے یہ بھی تاثر دیا کہ استحقاقی دستاویز نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو گا، اگر ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع کی گئی؟
صحافی انصار عباسی کی خبر کے سورس کے حوالے سے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت صحافیوں سے اُن کے سورس سے متعلق نہیں پوچھے گی کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے، برطانیہ میں مخصوص صورتحال کے تحت پوچھا بھی جاتا ہے لیکن یہ عدالت نہیں پوچھے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا اعتماد ایسے ہی پیدا ہو گا جب عدالت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
پی ایف یو جے کے ناصر زیدی، جو عدالتی معاون ہیں، انہوں نے بین الاقوامی عدالتوں کے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔ اظہار رائے کی آزادی اگر مفاد عامہ کے خلاف آ جائے تو پھر بات مختلف ہوتی ہے۔ میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بیان حلفی سابق چیف جج اور سابق چیف جسٹس پاکستان کے بارے میں ہے۔
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں بھی ایسا ہی کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ زیدی صاحب، ہر چیز کے اپنے حالات ہوتے ہیں ان کو یہاں لاگو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عوام کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں، آپ معاملےکی حساسیت کو سمجھیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عدالتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اُن پر الزام لگے تو وہ نہ تو پریس کانفرنس کرسکتی ہیں اور نہ پریس ریلیز جاری کر سکتی ہیں لیکن ہم پھر اپنے طریقے سے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔ اگر عدالت پر تنقید کی گئی ہوتی تو کبھی بھی نوٹس جاری نہ کیا جاتا لیکن یہاں معاملہ الزام کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں بنیادی حقوق متاثر ہوں وہاں اظہار رائے کی آزادی پر استثنیٰ ختم ہوتا ہے۔
عدالت نے اصل بیان حلفی اٹارنی جنرل کی موجودگی میں آئندہ سماعت میں کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
کیس کا سیاق و سباق
نومبر میں جنگ اخبار میں شائع خبر کے مطابق ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔‘
کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد رانا شمیم نے خبر کی میڈیا پہ آ کر تصدیق کی تھی جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔ خبر شائع ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر اخبار اور رانا شمیم کو شو کاز نوٹس جاری کر دیے تھے۔