’مغرب یوکرین معاملے پرضمانت دے ورنہ دوسرے آپشن بھی ہیں‘

ماسکو نے سکیورٹی دستاویزات کا ایک مسودہ پیش کر رکھا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیٹو یوکرین اور دیگر سابق سوویت ممالک کو رکنیت دینے سے انکار کرے اور وسطی اور مشرقی یورپ میں اپنی فوجی تعیناتیاں واپس لے۔

سپوتنک خبر رساں ایجنسی کی جانب سے فراہم کی گئی اس  تصویر میں روسی صدر ولادی میر پوتن 24 دسمبر 2021 کو ماسکو کے باہر نوو-اوگاریوو کی ریاستی رہائش گاہ پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے حکومتی اراکین کے ساتھ ایک میٹنگ کی صدارت کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ اگر مغرب نیٹو کی یوکرین تک توسیع کو روکنے کے لیے حفاظتی ضمانتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا تو وہ متعدد آپشنز پر غور کریں گے۔

رواں ماہ کے اوائل میں ماسکو نے سکیورٹی دستاویزات کا ایک مسودہ پیش کیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیٹو یوکرین اور دیگر سابق سوویت ممالک کو رکنیت دینے سے انکار کرے اور وسطی اور مشرقی یورپ میں اپنی فوجی تعیناتیاں واپس لے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ماسکو نے حالیہ ہفتوں میں یوکرین کے قریب روسی فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے اور کشیدگی کے پیش نظر اپنا سکیورٹی مطالبہ پیش کیا جس نے حملے کے مغربی خدشات کو ہوا دی ہے۔

 امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک ویڈیو کال میں پوتن کو خبردار کیا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے ’شدید نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

روس نے حملہ کرنے کے ارادے کی تردید کی ہے اور اس کے بدلے میں یوکرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ ماسکو کے زیر قبضہ علاقوں پر طاقت کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، تاہم یوکرین نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے مغرب پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے مطالبات جلد پورے کرے اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر مغرب نے ’ہمارے گھر کی دہلیز پر‘ اپنا ’جارحانہ‘ انداز جاری رکھا تو ماسکو کو ’مناسب فوجی تکنیکی اقدامات‘ کرنے ہوں گے۔

یہ واضح کرنے کے لیے کہ ماسکو کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے، انہوں نے اتوار کے روز روس کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے نشر کیے گئے بیان میں کہا کہ ’یہ متنوع ہوسکتا ہے۔‘

پوتن نے مزید کہا کہ ’اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ہمارے فوجی ماہرین مجھے کون سی تجاویز پیش کرتے ہیں۔‘

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نیٹو کے اس اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہ رکنیت کسی بھی ملک کے لیے کھلی ہے جو اس کے معیار پر پورا اترتا ہو، روس کو یوکرین کے بارے میں اس قسم کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے، جو پوتن چاہتے ہیں۔

تاہم انہوں نے اتفاق ہے کہ روس کے خدشات پر تبادلہ خیال کے لیے اگلے ماہ اس کے ساتھ سکیورٹی مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔

پوتن نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت جینیوا میں ہوگی۔ اس کے متوازی روس اور نیٹو کے درمیان بھی مذاکرات ہونے والے ہیں اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے تحت وسیع تر بات چیت متوقع ہے۔

اتوار کو نشر ہونے والے بیان میں پوتن نے کہا کہ روس نے مغرب کی جانب سے تعمیری جواب کی امید میں مطالبات پیش کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روسی صدر نے کہا کہ ’ہم نے یہ اس لیے نہیں کیا کہ اسے روک دیا جائے بلکہ اس کا مقصد سفارتی نتائج تک پہنچنا ہے، جو قانونی طور پر دستاویزات میں طے کیا جائے گا۔‘

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یوکرین کے لیے نیٹو کی رکنیت یا اتحادیوں کی ہتھیاروں کی تعیناتی ماسکو کے لیے ایک سرخ لکیر ہے جسے وہ مغرب کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیں۔‘ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ نیٹو یوکرین میں میزائل نافذ کر سکتی ہے جن کو ماسکو پہنچنے میں صرف چار یا پانچ منٹ لگیں گے۔

بقول پوتن: ’انہوں نے ہمیں ایک ایسی لکیر پر دھکیل دیا ہے جسے ہم عبور نہیں کر سکتے۔ وہ اسے اس مقام تک لے گئے ہیں جہاں ہم انہیں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ’رک جاؤ‘۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سکیورٹی مذاکرات کو طول دینے کی کوشش کر سکتے ہیں اور انہیں روس کے قریب فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روس نے اپنے سلامتی کے مطالبات شائع کیے تاکہ انہیں عوام کے سامنے رکھا جا سکے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر سلامتی معاہدے پر بات چیت کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔

پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اتوار کو نشر ہونے والے اپنے بیان میں کہا کہ نیٹو کی یوکرین یا دیگر سابق سوویت ممالک میں توسیع ہمارے لیے ’زندگی یا موت کا مسئلہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جمعے کے روز روس کی جانب سے زرکون ہائپر سونک میزائلوں کے تجربے سے سکیورٹی کی ضمانتوں پر زور دینے میں مدد ملے گی۔

جمعے کے روز لانچ کیے گئے زرکون کے بارے میں پوتن نے کہا تھا کہ وہ آواز کی رفتار سے نو گنا زیادہ رفتار سے 1000 کلومیٹر (620 میل) سے زیادہ کی رینج تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پیسکوف نے اتوار کے روز پوتن کی اس سابقہ وارننگ کی طرف بھی اشارہ کیا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کے خلاف یوکرین کی جارحیت سے یوکرینی ریاست کے لیے ’سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ انہیں کیف اور واشنگٹن میں اچھی طرح جا نتے ہیں۔‘

 اے پی کے مطابق روس نے 2014 میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے فوری بعد ملک کے مشرق میں علیحدگی پسندوں کی بغاوت کی حمایت کی تھی۔

سات سال سے زائد عرصے کے دوران اس لڑائی میں 14 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یوکرین کے صنعتی مرکز کو تباہ کر دیا گیا ہے، جسے ڈونبس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا