چلی کے سائنسدانوں نے ’دنیا کے آخری سرے‘ پر کیا کیا؟

زمین کے سب سے دور دراز مقامات میں سے ایک پر جانداروں کا مطالعہ کرنے والے ان سائنس دانوں کی توجہ مخصوص کائی پر بھی مرکوز تھی، جو سمندر کو سرخ کرسکتی ہے۔

28   دسمبر 2021 کی اس تصویر میں کابو ڈی ہورنوس نامی جہاز میں سوار چلی کے  سائنس دانوں کو دیکھا جاسکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

زمین کے سب سے دور دراز مقامات میں سے ایک پر جانداروں کا مطالعہ کرنے والے چلی کے سائنس دانوں نے خطے کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کریں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مہم، جو کرونا وائرس وبا کی وجہ سے ایک سال تاخیر کا شکار ہوئی، میں نقصان دہ جانداروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔

جنوبی امریکہ کے جنوبی سرے پر واقع چلی کے علاقے میگالینیس، جہاں بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل آپس میں ملتے ہیں، کو ’دنیا کا آخری سرا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پُنٹا اریناز سے آبنائے میگالینیس سے تک پھیلا ہوا اور بیگل چینل تک جاتا ہے۔

گلیشیئرز کے درمیان سے گزرتی ہوئی اس نہر میں کابو ڈی ہورنوس نامی جہاز میں سوار سائنس دانوں کی توجہ پانی پر مرکوز تھی، جس میں تیزابیت، نمک اور کیلشیئم کی سطح دیگر سمندروں اور مقابلے میں کم ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس پانی میں پائے جانے والے حالات آنے والی دہائیوں میں دنیا کے دیگر حصوں میں موجود پانی میں بھی ظاہر ہوں گے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس مہم کی سربراہی کرنے والے جوز لوئس اریارٹے نے خبر رساں ایجنسی  اے ایف پی کو بتایا کہ ’ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس لحاظ سے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق علاقائی منصوبوں میں تخفیف اور موافقت بہت پرانی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماحول ہمارے رد عمل کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بدل رہا ہے۔‘

سائنسی مشن نے ’ریڈ ٹائیدز‘ (سرخ لہر) نامی کائی پر خصوصی توجہ دی۔ یہ ایک نقصان دہ کائی ہے، جو سمندر کو سرخ کر سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کائی کے متعلق پہلی بار نصف صدی قبل میگالینیس کے علاقے میں معلوم ہوا تھا اور اس کی وجہ سے اب تک 23 افراد ہلاک اور200 اس کے زہر سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ علاقہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پگھلنے والے گلیشیئرز سے بھی متاثر ہوا ہے۔

اریارٹے نے کہا ’ہم نہیں جانتے کہ یہ تبدیلیاں کیسے ان جاندار اور خاص طور پر خرد حیاتیات (نظر نہ آنے والے جانداروں) پر اثر انداز ہوں گی۔‘

یہ تحقیقی جہاز 14 مقامات پر رکا اور ہر بار گہرے پانی سے نمونے لینے کے لیے استعمال ہونے والے آلے کی مدد سے 200 میٹر کی گہرائی تک مختلف سطحوں پر پانی کے نمونے لیے۔

بعض مقامات پر 300 میٹر سے زیادہ کی گہرائی سے مٹی کے نمونے جمع کرنے کے لیے بھی آلات استعمال کیے گئے۔

سائنسدانوں نے کائی اور سمندری حیات کی تلاش کے لیے ساحلوں پر گڑھے بھی کھودے۔

اس جہاز پر موجود 19 سائنس دانوں میں سے ایک سمندری حیاتیات دان روڈریگو ہک نے کشتی کے سب سے اونچے مقام سے پانی کی سطح کی جانچ  کرنے میں کئی گھنٹے گزارے۔

دور ایک وہیل مچھلی کو دیکھتے ہوئے وہ سگنل دیتے اور پھر ایک چھوٹی موٹر کشتی میں چھلانگ لگاتے تاکہ وہیل کا فضلے جمع کرنے کے لیے اس بڑے ممالیہ جانور کے زیادہ سے زیادہ قریب جانے کی کوشش کریں، تاکہ اس کی خوراک میں تبدیلیوں کا پتہ چلایا جا سکے۔

ہک کا کہنا ہے کہ سمندر زمین کے70 فیصد حصے پر محیط ہیں اور ان کے حوالے سے حکومتوں کی جانب سے اقدامات کا تاریخی فقدان رہا ہے۔

انہیں امید ہے کہ مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی آئندہ ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ27) میں سمندروں کے انتظام میں حقیقی عالمی تبدیلی کی نشان دہی کی جائے گی۔

ہک نے کہا کہ ’ہم انسانوں کو 2022 میں اپنے کام کا طریقہ تبدیل کرنے اور تبدیلی کی پالیسیوں کی طرف آگے بڑھنے کے لیے ایک ٹھوس فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وہ پریشان ہیں کہ ایک دن یہ خطہ ’زمین پر حیاتیاتی تنوع کے آخری گڑھوں میں سے ایک‘ بن سکتا ہے۔

نو روزہ مشن کے بعد جمع کی گئی معلومات کا تجزیہ کرنے کے لیے سائنس دان اب لیبارٹری جائیں گے۔

اس مہم میں شامل سب سے کم عمر رکن اور بائیو کیمسٹری کے طالب علم 24 سالہ ولسن کاسٹیلو نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہم اس بات کی آواز ہیں جو قدرت نہیں کہہ سکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات