سینیٹ: نادرا میں ریٹائرڈ فوجیوں کی ’بھرتی‘ پر بحث

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اس موقع پر کہا کہ نادرا میں چھ افراد ڈیپوٹیشن پر ملازم تھے اور وہ مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکار نہیں تھے۔

 پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں بدھ کو نادرا میں سابق فوجی اہلکاروں کی بھرتیوں اور قومی سلامتی پالیسی کو ایوان میں لانے پر بحث ہوئی ہے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں بدھ کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی بھرتی سے متعلق بحث ہوئی جبکہ قومی سلامتی پالیسی کو ایوان میں لانے پر حزب اختلاف کے اراکین نے احتجاج کیا۔

نادرا میں سبکدوش فوجی اہلکاروں کی ملازمتوں سے متعلق بحث کا آغاز جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کیا جنہوں سینیٹ میں پوچھے جانے والے اپنے ہی ایک سوال کے جواب پر مزید وضاحت طلب کی۔

سینیٹر مشتاق احمد نے اپنے سوال میں پوچھا تھا کہ ’نادرا میں کتنے لوگ ڈیپوٹیشن پر ہیں اور کتنے ریٹائرڈ مسلح افواج کے اہلکار وہاں کام کر رہے ہیں؟‘

بدھ کو انہوں نے سوال کے فراہم کردہ جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ نادرا میں دوبارہ ملازمت حاصل کرنے والے مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری میں اضافے اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی بڑی تعداد کے لیے کوئی ملازمت نہ ہونے کے باوجود مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو دوبارہ نادرا میں ملازمتیں دی گئیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری ملازمتوں سے سبکدوش ہونے والوں کو بڑی مراعات کے ساتھ دوبارہ ملازمتیں دینا نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘

سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسرار کیا کہ انہیں نادرا میں تعینات مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی تعداد اور ان کے عہدوں کے بارے میں بتایا جائے۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اس موقع پر کہا کہ نادرا میں چھ افراد ڈیپوٹیشن پر ملازم تھے اور وہ مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکار نہیں تھے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مشتاق احمد کے خدشات کو مکمل طور پر دور کرنے کے لیے انہیں ایک نیا سوال پیش کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ موجودہ سوال ڈیپوٹیشن کے ذریعے ملازمت کرنے والوں سے متعلق تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال کی شکل بدل کر پوچھا: ’نادرا میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تعداد، ان کی تقرری کی تاریخ، ان کی ذمہ داریاں اور کیا ان کے پاس ملازمت کے لیے اضافی قابلیت موجود ہے؟‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق نادرا میں ایک ہی دن میں تقریباً دو درجن ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کی حیثیت سے بھرتی کیا گیا ہے۔

پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر علی محمد خان نے اعظم نذیر تارڑ کے سوال کو ’بہت اچھا سوال‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا تفصیلی جواب دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی کو خصوصی مراعات نہیں دی جا رہی ہیں اور جن لوگوں کو ملازمتیں دی گئی ہیں وہ اہلیت کے مطابق ہیں۔‘

قومی سلامتی پالیسی

حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمان میں نہ لانے کے خلاف نعرے بازی کی جس سے ایوان کی کارروائی متاثر ہوئی۔

قومی سلامتی پالیسی سے متعلق گفتگو کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کیا جنہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کی زندگی اور موت کے معاملات قومی سلامتی سے متعلق ہیں۔

انہوں نے قومی سلامتی پالیسی میں اقتصادی سلامتی پر توجہ دینے پر حکومت کی تعریف کرتے ہوئے پالیسی کو ایوان میں نہ لائے جانے پر حکومت پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ پالیسی سینیٹ میں لائی جائے گی کیوں کہ یہ پارلیمان کا ایوانِ بالا ہے جو قانون سازی اور پالیسی سازی کا سب سے بڑا فورم ہے۔

شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ حزب اختلاف نے چھ دسمبر کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور یہ وہی اجلاس تھا جس میں قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے بائیکاٹ کی وجوہات بھی بتا دیں تھیں۔‘

پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کو تو بلایا گیا لیکن وزیراعظم عمران خان نے اس میں شرکت سے گریز کر رہے تھے۔

’جب تک وزیراعظم ہماری اِن پُٹ اور تنقید نہیں لیتے اس طرح کی کوئی بھی ملاقات بے معنی ہوگی۔‘

ان کے خیال میں وفاقی حکومت اور خصوصا وزیر اعظم کو قومی سلامتی پالیسی پر حزب اختلاف کے علاوہ پارلیمان، سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے تجاویز لینی چاہیے تھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے شیری رحمٰن کو روکتے ہوئے کہا کہ ایوان میں مفید گفتگو ہونا چاہیے جس سے تمام اراکین کو کچھ حاصل ہوسکے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حزب اختلاف ایوان کو مچھلی منڈی بنا دیتے ہیں جس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مچھلی منڈی کے الفاظ کو حذف کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

سینیٹر محسن عزیز کی تقریر کے دوران ان کی شیری رحمٰن کے ساتھ نوک جھونک چلتی رہی جبکہ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز بھی لقمے دیتے رہے۔

بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرمند تنگی نے فلور ملنے پر محسن عزیز پر طنزیہ جملے کسے جن میں سے بعض الفاظ چیئرمین سینیٹ نے حذف کرنے کا حکم دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست