فوجی ترجمان کی تردید کے بعد بھی ’ڈیل‘ کے دعوے کیوں؟

حکومتی وزرا کی جانب سے ’مسلم لیگ ن کی ڈیل‘ اور ’خفیہ ملاقاتوں‘ کے بیانات کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں چہ مگوئیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری (دائیں) اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد (بائیں) 22 ستمبر 2021 کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران۔ حالیہ دنوں میں وفاقی وزرا نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے متعلق متعدد دعوے کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رواں سال کے آغاز میں ہی حکومتی وزرا نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی ڈیل سے متعلق دعوے دوبارہ شروع کر دیے، جس سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں چہ مگوئیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ان ہی قیاس آرائیوں کے حوالے سے کیے گئے سوال پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے پانچ جنوری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران جواب دیا کہ ’کسی سے ڈیل نہیں کی جارہی۔ جو دعویٰ کرتا ہے اس سے وضاحت مانگی جائے کہ کون کس سے ڈیل کر رہا ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں۔‘

بعدازاں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’اپوزیشن چاہتی ہے کہ جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے، وہ ان کے سر پر آجائے۔‘

اسی طرح اتوار کو وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے کم از کم چار رہنما ’کسی‘ سے ملے اور یہ بتانے گئے کہ اگر ان کی پارٹی کی قیادت موزوں نہ لگے تو ان پر غور کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان چاروں نے ان سے (جن سے ملاقات ہوئی) کہا کہ اگر نواز شریف نے ملک کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے تو وہ ان پر غور کیوں نہیں کرتے۔‘

جب ان چار رہنماؤں کے نام پوچھے گئے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’آپ سب انہیں جانتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی کی نمایاں صفوں میں شامل ہیں۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل نے بھی فیصل آباد میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف چار لوگوں کے لیے ڈیل کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جن چارافراد کی ڈیل مانگی گئی ان میں شہباز شریف، ان کا بیٹا حمزہ شہباز، نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’درخواست کی جا رہی ہے کہ مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو بھی باہر جانے دیا جائے جبکہ شاہد خاقان عباسی یہیں رہیں گے۔‘

تاہم مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کسی ملاقات سے تردید کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ تھا کہ جن سے ملاقات ہوئی ان کا نام ظاہر کر دیں۔

بعض سیاسی تجزیہ کار بھی حکومتی وزرا کے ان دعوؤں کو ’بے بنیاد‘ قرار دے رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اگر یہ وزرا سچ بول رہے ہیں تو عوام کے سامنے مستند ثبوت پیش کریں۔ دوسری صورت میں چیف جسٹس کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ جمہوری حکومت کے خلاف ڈیل کرکےکون سازش کر رہا ہے۔

وزرا ڈیل کا دعویٰ کیوں کر رہے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے جب میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان سے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے اس پر ’حیرت‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اشارہ فوج کی جانب ہے تو ’ڈی جی آئی ایس پی آر کی تردید کے باوجود حکومتی وزرا عسکری ادارے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور من گھڑت اور بے بنیاد دعوؤں سے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ بیانات ادارے میں تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ انہیں خیال کرنا چاہیے کہ کبھی کہتے ہیں اپوزیشن وہ ہاتھ اپنے سر پر رکھوانا چاہتی ہے جو عمران خان کے سر پر ہے اور کبھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ کے چار رہنما ملاقاتیں کر رہے ہیں۔‘

’ایسے دعوؤں میں حقیقت ہوتی تو ثبوت کے ساتھ سامنے لائے جاتے۔ کوئی اپوزیشن جماعتوں سے کیوں ڈیل کرے گا اس کی وضاحت بھی پیش نہیں کی جارہی۔‘

اسی طرح سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے حکومتی وزرا کے بیانات کو ’غیر سنجیدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ’مایوس کن کارکردگی سے توجہ ہٹانے‘ کے لیے ایسے بیانات دیتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے بقول حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر سے حکومتی کارکردگی پر تنقید کے بعد شاید یہ سیاسی بحث دوسری جانب موڑنے کی کوشش ہے۔

بقول مجیب الرحمٰن شامی: ’جب سے یہ بیانات سامنے آئے ہیں میڈیا کی توجہ مسائل سے ہٹ کر اس بحث پر مرکوز ہے کہ وہ کون چار رہنما تھے جنہوں نے ملاقات کی ہے۔ وزرا کا مقصد یہی لگتا ہے کہ عوامی ایشوز کی بجائے میڈیا اور عوام کو نان ایشوز میں الجھائے رکھیں اور ٹائم گزاریں۔‘

دوسری جانب ٹی وی شو کے اینکر منصور علی خان سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتی وزرا یہ دعوے کر رہے ہیں تو اس معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے کہ ایک منتخب حکومت کے خلاف ڈیل کر کے اسے کون ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔

کیا وزرا کے بیانات کی تحقیق ہونی چاہیے؟

اس حوالے سے مجیب الرحمٰن شامی کا موقف ہے کہ ’ایک دوسرے پر الزام لگا کر متنازعہ بنانا اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے بیانات سیاسی طور پر بہتر سمجھے جاتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کرکے اپوزیشن جماعتوں کی آواز دبانے اور بے اثر کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔‘

’اپوزیشن حکومت پر الزامات عائد کرتی ہے یا کارکردگی پر سوال اٹھاتی ہے جس کے جواب میں وزرا کے پاس اس طرح کا پروپیگینڈا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھلا نواز شریف کے خلاف ان ہی کی پارٹی سے کون ملاقاتیں کر سکتا ہے؟ اور اگر یہ دعویٰ کیا بھی جا رہا ہے تو اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔‘

اسی طرح منصور علی خان بھی سمجھتے ہیں کہ سرکاری وزرا کی بات کو غیر سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ ’وہ بہت بڑا دعویٰ کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لیے خفیہ ڈیل ہو رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اب یہ ڈیل کس سے ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے؟ کیا عدالت سے سزا یافتہ مجرم اور مفرور نواز شریف سازش کر رہے ہیں؟ یہ سوال اہم ہیں۔ لہذا وزیر اعظم کو چاہیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھیں کہ یہ ملکی مفاد کا معاملہ ہے، ان خفیہ سازشوں کا نوٹس لیں۔‘

منصور علی خان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس خفیہ ایجنسیوں سمیت کئی ایسے ذرائع ہوتے ہیں جو معلوم کر لیتے ہیں کہ کون کس سے فون پر بات کر رہا ہے یا ملاقات کر رہا ہے، لہذا وہ ثبوت بھی عدالت میں پیش کیے جانے چاہییں۔‘

اسی طرح اعجاز اعوان نے کابینہ کے ارکان خصوصاً وزیر داخلہ شیخ رشید کے حوالے سے کہا کہ ’وہ اہم ترین عہدے پر بیٹھنے کے باوجود غیر محتاط بیان بازی کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ ادارے کو سیاست میں کھینچنے سے ان کو تو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ادارے کا نقصان ہوتا ہے اور جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزرا کے بیانات کا نوٹس لیا جانا چاہیے اور انہیں بیان بازی میں محتاط رہنے کی ہدایت کی جانی چاہیے۔ اسی طرح اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ بھی بلاوجہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے الزامات عائد نہ کریں۔ ہاں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہوں تو وہ سامنے لائے تاکہ حقائق سامنے آئیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست