اقلیتوں کو حقوق کون دلائے گا؟

پاکستان میں ماضی کی طرح اس دور حکومت میں بھی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مستقل کی بجائے وقتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جن کا مقصد محض وقتی طور پر ملک کی شبیہہ بہتر کرنا ہوتا ہے نہ کہ مستقل طور پر اقلیتوں کو حقوق دلوانا۔

 14 مئی 2015  کی اس تصویر میں پاکستانی سول سوسائٹی کی اراکین   اسماعیلی  کمیونٹی کی ایک بس پر   مسلح افراد کے حملے کے بعد لاہور میں    شمعیں جلا رہی ہیں۔  کراچی  میں ہونے والے اس حملے میں اسماعیلی کمیونٹی کے  44 افراد ہلاک ہوئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی / عارف علی)

گذشتہ سال اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بل کو سینیٹ کی مذہبی امور سے متعلق کمیٹی نے رد کیا اور اس کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اقلیتوں کو پہلے ہی ملک میں آزادی ہے، اس لیے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں اور جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ مروجہ قوانین میں پہلے ہی موجود ہیں۔

مجوزہ قانون کے محرک اور نواز لیگ کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی نے کہا تھا کہ اس میں جبری تبدیلی مذہب، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ، ان کے ورثے کے تحفظ اور ان کی جائیدادوں کے تحفظ سمیت کئی ایسے امور تھے، تاہم کمیٹی کے اندر ایک مخصوص ذہن کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتوں کے کوئی مسائل نہیں۔

ایک سال بعد پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ننگرپارکر کے دورے کے دوران ہندو برادری سے ملاقات کی اور کہا کہ پاکستان میں اقلیتی برادری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

دوسری جانب پاکستان پر اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے صورت حال ابتر ہونے اور کئی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے بارہا اس کا تذکرہ اپنی رپورٹوں میں کیے جانے کے حوالے سے تنقید کی جاتی ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کم از کم ایک ہزار ہندو اور مسیحی برادری کی خواتین کا ہر سال جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے، تاہم ہندو برادری کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ایسے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

ہندو اور مسیحی برادری کے علاوہ سکھ برادری نے بھی اپنی خواتین کے جبری مذہب تبدیل کروانے کے معاملے پر بات کی۔ 2019 میں 19 سالہ جگجیت کور کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا گیا۔ سکھ برادری کی جانب سے شور مچانے پر حکومت پنجاب نے ایکشن لیا اور کور ایک ماہ بعد اپنے گھر واپس آئیں۔

ایک طرف پارلیمان اقلیتوں کے بل کو مسترد کرتی ہے تو دوسری جانب حکومت مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے بے بس ہے۔ یاد ہے آپ کو اسسٹنٹ کمشنر زینت حسین، جنہوں نے وہی بات کی تھی جو جنرل باجوہ نے ننگرپارکر میں کی ہے۔ اے سی زینت نے کہا تھا کہ بطور پاکستان کے شہری احمدی برادری کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے، لیکن اس کے بعد مذہبی تنظیمیں اے سی زینت کے دفتر پہنچ گئیں اور آخرکار انہیں معافی مانگنی پڑی۔

شاید جنرل صاحب بھول گئے ہیں کہ حکومت ہی تھی جس نے ملک کے صف اول کے اکانومسٹ عاطف میاں کی تعیناتی پر مذہبی جنون کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ عاطف میاں کی تعیناتی پر مذہبی انتہا پسندوں نے احمدی ہونے کے باعث انہیں ایک اہم عہدہ دینے پر اعتراض کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کیا اس حوالے سے مذہبی انتہا پسندوں ہی کو مورد الزام تھہرایا جائے اور کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جہاں اقلیتوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کیا کرک کا واقعہ کافی نہیں ہے کہ حکومت اور پارلیمان سیاسی وابستگی سے بلند ہو کر اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کام کریں۔ کیا شیخوپورہ میں چرچ پر حملہ کافی نہیں ہے، دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کی تعمیر پر واویلا کم ہے، گھوٹکی میں مندر پر حملہ۔ ان واقعات کی فہرست تو بہت طویل ہے۔

ایک طرف امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں تو دوسری جانب اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منطور کی ہے، جس میں انسانی حقوق اور خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کے ابتر حالات پر پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس کے سٹیٹس پر نظرثانی کی جائے گی۔

لیکن پاکستان میں ماضی کی طرح اس دور حکومت میں بھی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مستقل کی بجائے وقتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جن کا مقصد محض وقتی طور پر ملک کی شبیہہ بہتر کرنا ہوتا ہے نہ کہ مستقل طور پر اقلیتوں کو حقوق دلوانا۔

2014 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ نیشنل کونسل برائے اقلیت کا قیام عمل میں لایا جائے جو آئین کے تحت اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے کام کرے۔ چھ سال گزرنے کے بعد وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی بجائے نیشنل کمیشن برائے اقلیت کو از سرِ نو تشکیل دے دیا۔ یہ کمیشن قانونی طور پر محض ایڈ ہاک کمیٹی ہے اور کچھ نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ