’سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات جاری رہنے کا خدشہ‘

ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے بعد سٹاک مارکیٹ 1100 پوائنٹس تک گر گئی جبکہ بحران کے ڈالر پر اثرات کل بینک کھلنے پر پتہ چلیں گے۔

24 فروری، 2022 کو کراچی میں ایک بروکر پاکستان سٹاک ایکسچینج  کے ٹریڈنگ سیشن میں سکرین پر مارکیٹ کی صورتحال دیکھ رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں اتوار کو  وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد پیدا شدہ سیاسی بحران کے پیش نظر پیر کو سٹاک ایکسچینج پر منفی اثرات دیکھے گئے۔  

ہفتے کے آغاز پر آج صبح سٹاک مارکیٹ کھلتے ہی 1100 پوائنٹس تک گر گئی، جس کے بعد مارکیٹ مستقل رہنے کی بجائے اوپر نیچے ہوتی رہی۔ دوپہر 12 بجے تک مارکیٹ منفی 800 پوائنٹس پر چل رہی تھی۔  

غیر یقینی سیاسی صورتحال کے ڈالر پر پڑنے والے اثر کا پتہ منگل کو ہوسکے گا کیوں کہ پیر کو زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے بینکوں کی چھٹی ہے۔  

گذشتہ روز  وزیراعظم عمران خان کی حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اجلاس ہوا۔ تاہم ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کے شروع میں رولنگ دیتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا، جس کے فوری بعد عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی ہے۔

اسی روز صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علویٰ نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی کارروائی پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اتوار کی چھٹی کے باوجود شنوائی کا آغاز کردیا۔  

معاشی ماہرین کے مطابق سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات نئی حکومت بننے تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔  

معاشی ماہر اور سپیکٹرم سکیورٹیز کے تحقیقی شعبے کے سربراہ عبدالعظیم نے  بتایا: ’ملک میں جب بھی سیاسی صورتحال خراب یا بہتر ہوتی ہے تو پاکستان سٹاک اس کا زیادہ اثر لیتی ہے۔ موجودہ سیاسی بحران نے مارکیٹ پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا۔

’ایسی غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کار کو سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا ہوگا؟ کیا واقعی حکومت ختم ہوگئی ہے یا سپریم کورٹ حکومت بحال کردے گی یا الیکشن ہوں گے؟ اس لیے وہ سرمایہ مارکیٹ میں لگانے سے اجتناب کرتے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ سینکڑوں پوائنٹس منفی پر چلنے لگتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ایسی صورتحال میں بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) بھی آگے نہیں آرہا، جس کے باعث دیگر بیرون سرمایہ کار بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور یہ منفی اثرات کئی ماہ تک چل سکتے ہیں۔‘

کراچی کے صحافی اور معاشی تجزیہ نگار تنویر ملک نے بتایا کہ سیاسی بحران کے باعث نہ صرف سٹاک مارکیٹ بلکہ دیگر مالیاتی شعبوں پر بھی منفی اثرات ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’گذشتہ ایک مہینے سے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف سرگرمیوں کے باعث معاشی طور پر بھی غیر یقینی صورتحال رہی جس کے باعث نہ صرف سٹاک مارکیٹ  گراوٹ کا شکار ہے بلکہ ڈالر کے ریٹ میں اضافہ ہوا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوگئے ہیں۔’آپ یہ سمجھیں کہ پاکستان کے پاس در آمداد کے لیے  صرف ڈیڑھ سے دو مہینے کے فنڈ بچے ہیں۔

’اگر یہ سیاسی بحران جلد حل نہیں ہوا تو اس کے انتہائی منفی اثرات ہوں گے اور ملک میں جاری معاشی بحران شدید ہوسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’اگر موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ بحال بھی کر دے تو سیاسی غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے گی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ایسی بحران والی حکومت سے بات نہیں کرے گا۔ یہ سیاسی بحران نئی حکومت آنے تک جاری رہ سکتا ہے۔‘

’امریکہ سے خراب تعلقات، پاکستان دوالیہ ہوسکتا ہے‘

عالمی مالیاتی نیوز سروس بلوم برگ نے اپنے مالیاتی گاہکوں کے لیے جاری کی گئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی بحران میں امریکہ کو گھسیٹنے کے انتہائی خطرناک اور واضح نتائج نکلیں گے، جن کے باعث پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔  

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے باعث پاکستانی کرنسی ڈوب رہی ہے جبکہ موجودہ سال کے دوران ملک کے ڈالر بانڈز پہلے ہی پانچ فیصد گر چکے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت