سمندروں کے بادشاہ کہلانے والے ملاح اب روزی سمیت ڈوبتے ہیں

اگلے 20 سے 25 سالوں میں ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کا بڑا حصہ سمندر بُرد ہوجائے گا جبکہ 40 سے 50 سالوں میں کراچی کی ساحلی بستیاں ڈوب جائیں گی، رپورٹ۔

بوریوں، کپڑے کی چادروں اور چٹایوں سے بنی جھونپڑیوں کے درمیان ایک خالی پلاٹ کے پاس تھوڑی دیر پہلے ایک ٹرک سے عمارتی ملبہ اتارا گیا ہے۔

نوجوان سکندر دبلو اپنے بھائی کے ساتھ عمارتی ملبے کو پلاٹ میں پھیلا رہے ہیں۔ دبلو نے یہ ملبہ چار ہزار روپے میں خریدا اور خالی پلاٹ میں مکمل بھرائی کے لیے انھیں ملبے کے پانچ اور ٹرک خریدنے ہیں تاکہ پلاٹ میں بھرائی ہوسکے۔

اس بھرائی پر وہ گھر بنائیں گے کہ برادری کے اصول کے مطابق ان کی شادی گھر بنانے سے مشروط ہے۔

بقول سکندر ’پہلے ہماری بستی اوپر تھی اور سمندر نیچے تھا تو بارش کا پانی آسانی سے سمندر میں چلا جاتا تھا مگر اب سمندر کی سطح اونچی ہو گئی ہے اور بارش کا پانی بستی میں ہی کھڑا رہتا ہے، اس لیے نیا گھر بنانے سے پہلے بھرائی ضروری ہے۔ مٹی سے بھی بھرائی ہوسکتی ہے مگر اس میں پانی سیم کر آتا ہے اس لیے عمارتی ملبہ خریدتے ہیں۔‘

سکندر بتاتے ہیں بارش کا پانی تو سال میں ایک بار آتا ہے مگر ہر مہینے جوار بھاٹے کے دوران سمندر کا پانی بھی بستی کو ڈبو دیتا ہے۔

’آج کل جوار بھاٹا ہے مگر اس بار گذشتہ دنوں انڈیا سے ٹکرانے والے وایو سائیکلون کے باعث جوار بھاٹا خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور تقریباً ساری بستی سمندر کے پانی سے بھر گئی ہے۔‘

کراچی کی ساحلی بستی ریڑھی گوٹھ کے اس حصے کا نام دبلہ پاڑا ہے، جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے جزائر پر چڑھتے پانی کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کا نیا مسکن ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق 60 ہزار آبادی والی یہ بستی تین سو سال پُرانی ہے۔

دریائے سندھ پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر کے بعد دریا میں پانی کے بہاؤ کی کمی کے باعث سندھ ڈیلٹا کے کئی جزائر سمندر کی لپیٹ میں آ گئے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ان جزائر سے نقل مکانی کرنے والوں نے ریڑھی گوٹھ میں دبلو پاڑا نامی بستی بسائی ہے۔

بستی کے مکین نور محمد ملاح کے مطابق ان کا خاندان کئی صدیوں سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں واقع کھوبر کریک میں ایک چھوٹے جزیرے پر رہتا تھا۔

 نور محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دریائے سندھ میں میٹھا پانی بہت تھا جس کے باعث نہ صرف دریا میں بلکہ سمندر میں بھی مچھلی، جھینگے اور پلا مچھلی ملتی تھی اور ہم خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ لوگ ہمیں میر بحر یعنی سمندر کا بادشاہ کے نام سے پکارتے تھے۔ پھر جانے کیا ہوا دریا میں پانی آنا بند ہوگیا۔ سمندر کا پانی اوپر چڑھ آیا اور ہمارا جزیرہ ڈوب گیا۔ بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ ہم ادھر آئے، مگر لگتا ہے سمندر پیچھا کرتا ادھر بھی آگیا ہے اب یہ بستی بھی ڈوبنے لگی ہے۔ نہ جانے اب کیا ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ سال پہلے مقامی لوگوں کی درخواست پر وفاقی حکومت نے بستی کو غیر معمولی جوار بھاٹے سے بچانے کے لیے ایک طرف سے پتھروں کی دیوار تعمیر کر دی۔ پہلے تو بستی میں سمندر کا پانی بھرنے کے بعد کچھ دنوں میں اتر جاتا تھا مگر اب دوسری طرف سے بستی میں داخل ہونے والا پانی دیوار کے باعث ہر وقت کھڑا رہتا ہے جس کے باعث بستی میں ایک بو رہتی ہے اور کھڑے پانی کے باعث مچھروں کی بہتات ہے۔

مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ جگہوں پر کچی مٹی کے بند باندھے تاکہ سمندر کا پانی بستی میں داخل نہ ہو مگر اب پانی ان کچے بندوں سے سیم کر آتا ہے۔ کچھ لوگوں نے جھونپڑیوں میں پانی آنے کے باعث اپنی جھگیوں کے چاروں طرف پتھروں سے دیواریں بنوائیں مگر پانی سیم کر گھروں میں آ جاتا ہے۔

ماضی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے اس بستی میں پکے چبوتروں پر ماحول دوست کچھ گھر تعمیر کرا کے دیے جو پانی سے محفوظ ہیں مگر بستی کی اکثریت ابھی بھی بڑھتی سمندری سطح سے پریشان ہے۔

سماجی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے باعث کراچی، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کی ساحلی پٹی کو سمندری کٹاؤ سے شدید خطرات ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے تحت یہ خطرات دگنے ہو گئے ہیں۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے 20 سے 25 سالوں میں ٹھٹھہ، سجاول اور بدین اضلاع کا بڑا حصہ سمندر بُرد ہو جائے گا جبکہ 40 سے 50 سالوں میں کراچی کی ساحلی بستیاں سمندری چڑھاؤ کے سبب مکمل طور پر ڈوب جائیں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات