یکساں جسمانی مہک والے آپس میں گہرے دوست: تحقیق

اسرائیلی محققین کو پتہ چلا ہے کہ جس طرح کتے نئے دوست کی جنس، صحت یا مزاج کا تعین کرنے کے لیے ایک دوسرے کو سونگھ سکتے ہیں اسی طرح انسان بھی ایک دوسرے کی مہک سے کام لیتے ہیں۔

یہ تصویر 25 مارچ 2014 کو لندن میں لی گئی ہے جس میں پارٹی میں جانے والے ایک دوسرے کے کپڑے سونگھتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

اسرائیل میں ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق جن لوگوں کی جسمانی مہک ایک جیسی ہوتی ہے ان کے آپس میں دوست بن جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اسرائیلی محققین کو پتہ چلا ہے کہ جس طرح کتے نئے دوست کی جنس، صحت یا مزاج کا تعین کرنے کے لیے ایک دوسرے کو سونگھ سکتے ہیں اسی طرح انسان بھی ایک دوسرے کی جسمانی مہک سے کام لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کام زیادہ ’مخفی‘ اور لاشعوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔

اسرائیل کے شہر رحوووت میں وائزمن انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں محققین کی تحقیق کے نتائج کا تعین کپڑوں کو ’سونگھ‘ کر کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے جو آلہ استعمال کیا گیا اسے ’ای نوز‘ کہتے ہیں۔ یہ آلہ بتاتا ہے کہ سماجی سطح پر انسانوں کے درمیان میل جول میں شائد سونگھنے کی حس کو اس سے زیادہ مرکزی حیثیت حاصل ہے جو اس سے پہلے سمجھی گئی۔

تحقیق کے مصنفین کے بقول: ’چوں کہ انسان اپنے آپ سے ملتے جلتے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں، ہم نے یہ مفروضہ قائم کیا  کہ انسان لاشعوری طور پر جسم کی مہک کی مماثلت کا اندازہ لگانے کے لیے خود کو اور دوسروں کو سونگھ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دوستی پنپ سکتی ہے۔

’ہو سکتا ہے کہ مکمل اجنبی افراد میں محض پہلی نظر کی بجائے انہیں پہلی بار سونگھنے پر ہماری دلچسپی پیدا ہو جائے۔‘

محققین کی ٹیم کا مفروضہ یہ تھا کہ لاشعوری طور پر خود کو اور دوسروں کو سونگھتے ہوئے لوگ تحت لاشعوری موازنہ کرتے ہیں جو ہمیں ان لوگوں کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتا ہے جن کی مہک وہی ہوتی ہے۔ اس مفروضے کو جانچنے کے لیے ٹیم نے ’کلک فرینڈز‘ کے جوڑے بھرتی کیے۔ (ہم جنس غیر رومانوی دوست جن کی دوستیاں آغاز میں تیزی سے قائم ہوئیں۔)

اس کے بعد ان دوستوں کی جسمانی مہک کے نمونے اکٹھے کیے گئے جنہیں تجربات کے دو سیٹس کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ ان کا موازنہ جسمانی مہک کے ان نمونوں کے ساتھ کیا جائے جو بے ترتیب جوڑوں سے لیے گئے۔

پہلے تجربے میں ای نوز کا استعمال کیا گیا جس میں میٹل آکسائیڈ کے 10 سینسر لگے ہوئے تھے۔ ہر سینسر پر مختلف مواد کی تہہ چڑھی ہوئی تھی تا کہ بعض کیمیائی مادوں کا پتہ لگایا جا سکے۔ اس عمل کا مقصد ہر کلک فرینڈ جوڑے کے لباس پر موجود بو کے کیمیائی خواص کا اندازہ کرنا تھا۔

دوسرے تجربے میں شامل افراد کے الگ سیٹ سے کہا گیا کہ وہ جسمانی بو کے دو گروپس کے نمونے سونگھیں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ کیا ان میں کوئی مماثلت موجود ہے۔ دونوں تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ بے ترتیب جوڑوں کے ساتھ موازنے میں کلک فرینڈز کے جوڑوں کی جسمانی بو میں باہمی طور پر نمایاں طور پر زیادہ مماثلت تھی۔

لیکن محققین یہ امکان کم کرنے میں دلچسپی تھی کہ تجربے میں شراکت دار ہونے کی بجائے بو میں پائی جانے والی یکسانیت ’کلک فرینڈشپس‘ کا نتیجہ تھی کیوں کہ ایک جیسی بو کا مالک ہونا ایک جیسی خوراک یا تجربات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر مزید تجربات کیے گئے جن میں جوڑوں کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کیے بغیرسماجی میل جول کے لیے کہنے سے پہلے ای نوز کو ان رضاکاروں کو ’سونگھنے‘ کے لیے استعمال کیا گیا جو اجنبی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میل جول کے لیے ایک طریقہ جو استعمال کیا گیا وہ مرر گیم کا تھا جس میں تجربے میں شامل افراد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دو فٹ سے کم فاصلے کے ساتھ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوں اور ایک دوسرے کے ہاتھ کی حرکت کو نقل کرنے کی کوشش کریں۔

ہر میل جول کے بعد رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ مخالف سمت میں موجود افراد کے بارے میں طے کریں کہ انہوں نے انہیں کتنا پسند کیا ان کے درمیان دوستی امکان کتنا تھا۔ ای نوز کے استعمال سے سامنے آنے والے نتائج سے پتہ چلا کہ وہ افراد جن کا میل جول زیادہ مثبت تھا ان کی جسمانی بو میں زیادہ یکسانیت تھی۔

حاصل شدہ اعدادوشمار کو کمپیوٹر کے مخصوص پروگرام کے حوالے کیا گیا جس سے محققین کو پتہ چلا کہ ای نوز 71 فیصد درستی کے ساتھ پیشگوئی کر سکتی ہے کہ کون سے دو افراد کے درمیان مثبت سماجی میل جول موجود ہے۔

تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا: ’ماضی میں جسمانی بو پر کی جانے والے تحقیق دراصل اس نظریے کی حمایت کرتی ہے کہ ذات سے تعلق کے حوالے سے کیا جانے والا عمل انسانوں میں جسمانی بو کی شناخت میں ثالت کا کردار ادا کر سکتا ہے جس طرح یہ اعلیٰ نسل کی دوسری مخلوق میں کرتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق