انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سری نگر میں 30 سال بعد سینیما کی واپسی ہو رہی ہے تاہم یہاں کے رہائشی اس کی افادیت کے حوالے سے اب بھی الجھاؤ کا شکار ہیں۔
نوے کی دہائی میں سری نگر کے ایک رہائشی عبدالقیوم انڈین فلموں کے شیدائی رہے ہیں۔ انہیں وہ دور یاد ہے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سینیما گھر میں جا کرانڈین فلمیں دیکھا کرتے تھے۔
عبدالقیوم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم تو ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر سینیما دیکھتے تھے۔ اب ملٹی پلیکس میں ڈن لوپ کی کرسیاں ہوں گی۔ پندرہ سو کون خرچ کرے گا۔ یہاں کے حالات ایسے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکوں گا کہ نیا سینیما چلے گا یا نہیں۔‘
نوے کی دہائی کے اوائل میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر نے خطے میں انڈیا کی حکمرانی کے خلاف مسلح شورش دیکھی۔
خطے میں تشدد میں اضافے کے ساتھ ہی کشمیر کے سینما ہالوں کو جنگجوؤں کی طرف سے حملے کی دھمکی کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔
ستمبر 2022 میں تین دہائیوں کے بعد سری نگر شہر میں پہلا ملٹی پلیکس سنیما کھل رہا ہے۔
وادی کشمیر میں 1990 کی دہائی سے پہلے 15 سینیما ہال موجود تھے۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں فعال سینیما گھروں کی تعداد آٹھ کے قریب رہ گئی تھی۔
اب جب کہ سری نگر میں پہلا ملٹی پلیکس کھلنے جا رہا ہے تو یہاں کی آبادی، خصوصاً نوجوان اس کے حوالے سے ملے جلے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سری نگر گرلز کالج کی طالبہ مہک یوسف نے کہا کہ ’آغاز میں کافی لوگ وہاں جائیں گے سینیما دیکھنے کے لیے۔ میرے خیال میں یہ غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ کشمیری باہر جا کر فلمیں تو دیکھتے ہی ہیں تو اگر یہاں پر سینیما کھلے گا تو شاید اچھا ہی ہو۔‘
روچیکا شرما کا تعلق جموں سے ہے جہاں پر سینیما پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن اب وہ سری نگر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مقیم ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حال ہی میں ہم نے دیکھا ہے کہ تین دہائیوں بعد یہاں پر سینیما پھر سے کھل رہا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ سیاحوں کے لیے ایک پرکشش چیز بن سکتی ہے۔‘
وجاہت بھی سری نگر کے ایک نجی کالج کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب یہاں ملٹی پلیکس کھلے گا۔ نوجوان وہاں جائیں گے۔ فلم دیکھیں گے تو ظاہر سی بات ہے وہ لوگ اسے اپنائیں گے جس کی وجہ سے ہماری ثقافت پر مزید برا اثر پڑے گا۔‘
الجھاؤ کی اس کیفیت میں آج بھی عبدالقیوم کو وہ دور یاد ہے جب سری نگر میں آٹھ سینیما گھر ہوتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم دکان پر بیٹھتے تھے۔ سینیما میں آخری شو نو سے 12 لگتا تھا۔ ہم دوستوں کے ساتھ سینیما دیکھنے جاتے تھے۔ یہاں آٹھ سینیما گھر ہوا کرتے تھے۔ ایک نیلم تھا، ریگل تھا، براڈ وے ہوم سینیما تھا اور شاہ سینیما تھا۔‘
انہوں نے آہ بھری آواز میں کہا کہ ’بڑا مزا آتا تھا۔ پھر ایسے حالات ہوگئے کہ سینیما بند ہو گئے۔‘
سری نگر میں 30 سال بعد کھلنے والے پہلے سینیما وہ بھی ملٹی پلیکس میں 520 کرسیاں ہوں گی اور اس میں تین ہالز بنائے گئے ہیں۔
ملٹی پلیکس سری نگر کے شیو پورہ علاقے میں واقع ہے جو بادام باغ آرمی چھاؤنی کے قریب ہے۔
ملٹی پلیکس کے مالک وکاس دھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملٹی پلیکس بنانے کا خیال ہمیں تین چار سال پہلے آیا۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں کے جو نوجوان ہیں ان کے پاس تفریح کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
’ایک خاندان کے طور پر ہم نے سوچا کہ یہاں پر ایسی کیا چیز کی جائے جس سے نوجوانوں سمیت خاندان کے تمام افراد کو تفریح ملے۔ بہت سے خیالات آنے کے بعد ہم نے طے کیا کہ فلم ایک ایسی چیز ہے جو کشمیر میں دیکھنے کو کم ملتی ہے۔ بلکہ بالکل نہیں ملتی۔ یہ ایسی چیز ہے جسے ہمیں بڑھانا چاہیے۔‘
وکاس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسی چیز ہے جس میں ابھی تک حکومت اور مقامی لوگوں نے بہت سراہا ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں کشمیر کے نوجوانوں کو تھوڑی سی راحت ملے گی۔
’سارا خاندان صبح سویرے آئے گا۔ ایک دو فلمیں دیکھے گا۔ کچھ کھانا وغیرہ کھا کر شام کو واپس جائیں گے۔‘
عبدالقیوم کا ماننا ہے کہ تیس سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب سری نگر کے رہائشی اس طرح سے خوش حال نہیں ہیں جیسے پہلے تھے۔ اس لیے گزرا وقت واپس آنا مشکل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا ہے۔ یہ سب سے بڑی بات ہے۔ وہ وقت جب ہم چھوٹے تھے۔ جوانی تھی۔ باہر نکلتے تھے۔ کوئی مسئلہ اور دشواری نہیں تھی۔ رات گئے گھر آتے تھے۔‘
’آج سے 30 سال پہلے پلاٹینیم سینیما کی بات کریں تو وہاں پر چھابڑی فروش ہوتے تھے۔ ڈیڑھ روپے کی ٹکٹ ملتی تھی۔ وہ ڈیڑھ روپے ہم کہاں سے لاتے تھے؟ والد سے یا چار چار آنے جوڑ کر ٹکٹ کے پیسے جمع کرتے تھے۔‘
سری نگر کے ڈپٹی میئر پرویز احمد قاضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہاں پر چھ سات بجے کے بعد یا آٹھ بجے تمام کاروباری مراکز بند ہو جاتے ہیں۔
’ایسے میں کسی سینیما گھر کا چلنا ناممکن ہی ہے۔ لوگ بھی گھروں سے باہر نہیں جاتے گذشتہ 30 سال سے یہاں پر لوگ چھ سات بجے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے سری نگر کے رہائشی حیا جاوید نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نوے کی دہائی کے بعد کی صورت حال نے لوگوں کے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے اور وہ تفریح کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں۔‘