جماعت اسلامی پارلیمانی سیاست میں کامیاب کیسے ہو؟

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان، پشاور اور چارسدہ میں حالیہ ضمنی انتخابات میں تمام حلقوں پر جماعت اسلامی کے امیدواروں نے حصہ لیا لیکن کامیابی نہیں ملی تھی۔

اسلامی جماعت جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق 8 ستمبر 2017 کو اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران میانمار کے سفارت خانے کے قریب مظاہرین سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی/فاروق نعیم)

جماعت اسلامی تو  بظاہر ایک قومی سیاسی و مذہبی جماعت مانی جاتی ہے تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے انتخابات میں اس کی کارگردگی تجزیہ کاروں کے مطابق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی تازہ جھلک عوام نے خیبر پختونخوا میں حالیہ ضمنی انتخابات میں دیکھ بھی لی۔

جماعت اسلامی تقسیم ہند کے بعد سے اب تک قومی سیاست میں حصہ لے رہی ہے تاہم پاکستانی کی پارلیمانی سیاست میں ابتدا سے کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔

اسی تناظر میں اب کئی لوگ جماعت اسلامی کی حالیہ دنوں میں نعرے ’حل صرف جماعت اسلامی‘ کو سوشل میڈیا پر استعمال کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی بنیاد مذہبی سکالر سید ابولاعلٰی مودودی نے 1941 میں رکھی تھی اور اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق مودودی اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک سیاسی سوچ پولیٹیکل اسلام) کے حامی تھے اور بنیاد پرستی کے خواہاں نہیں تھے۔

اس مقالے کے مطابق جماعت اسلامی اور مولانا مودودی خود مصر کی سیاسی و مذہبی سوچ رکھنے والی جماعت اخوان المسلمین سے متاثر تھے تاہم پاکستان میں جماعت اسلامی کو ابتدا سے وہ حمایت نہیں ملی جس طرح کی اخوان المسلمین کو حاصل تھی۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ’افغان جہاد‘ کے دوران پارٹی کے سربراہی کرنے والے قاضی حسین احمد کے بیٹے آصف لقمان قاضی نے بروکنگ پر شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ابوالا اعلٰی مودودی نے پاکستان کو مذہبی سوچ دینے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے آٗئین کو اسلامی بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔

لقمان قاضی نے لکھا کہ ’تقسیم ہند کے بعد محمد علی جناح نے مودودی کو پانچ مرتبہ دعوت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کے بارے میں خطاب کر سکیں۔‘

پارلیمانی سیاست میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں لقمان قاضی نے لکھا کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ایک جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا انتظامی ڈھانچہ انقلابی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ٹھیک ہے لیکن پارلیمانی سیاست میں اس ڈھانچے سے کامیابی حصل نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے لکھا کہ اسی تنظیمی ڈھانچے پر جماعت کے اندر بھی بحث ہوتی رہتی ہے کہ مصر، ترکی سمیت دیگر ممالک میں جماعت اسلامی سوچ کی حامی سیاسی جماعتیں پارلیمانی سیاست میں کامیابی حاصل کرتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

آصف لقمان قاضی کے مطابق، ’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ بااثر شخصیات کو پارلیمانی سیاست اور انتخابات میں مقابلے کے لیے اتار دے اور ان کو عام لوگوں کے ساتھ برابر نہیں کرنا چاہیے جس طرح موجودہ تنظیمی ڈھانچے میں ہے۔‘

جماعت اسلامی 2002 کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کی اتحاد متحدہ مجلس عمل کا حصہ تھی جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کی تھی تاہم اس کے علاوہ تاریخ میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ جماعت اسلامی نے کسی بھی صوبے یا وفاق میں اپنی حکومت قائم کی ہو۔

پروفسیر محمد ابراہیم ماضی میں بھی جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر رہے چکے ہیں اور اب دوبارہ اسی عہدے پر فائز ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں ناکامی کا تو انہیں پہلے سے علم تھا کہ یہ مقابلہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین تھا تاہم وہ انتخابات میں حصہ لے کر صرف اپنے ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔

پروفیسر ابراہیم نے بتایا، ’پاکستان جمہوری اتحاد (یعنی پی ڈی ایم) میں ہم شامل نہیں ہیں اور نہ ہم وفاقی حکومت کے ساتھ ہیں اور ہم اسی وجہ سے ان کے درمیان رہے ہیں تاکہ سب کا احتساب کر سکیں۔‘

جب پروفسیر ابراہیم سے پوچھا گیا کہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو مختلف جگہوں پر شکست ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات شفاف نہیں تھے اور مختلف مقامات پر ’ہم سے جیتی گئی نشستیں چھینی گئی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’عمران خان خود بھی اب اعتراف کر چکے ہیں کہ نیوٹرل اگر نیوٹرل رہتے تو وہ کبھی نہ جیتتے۔ ان انتخابات میں عمران خان کو جتوایا گیا تھا۔‘

پروفیسر ابراہیم سے جب پوچھا گیا کہ کیا انتخابات میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی نے اپنی تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے بارے میں سوچا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ’ہم آئندہ انتخابات میں بھرپور مقابلہ کریں گے اور اگر انتخابات شفاف طریقے سے کرائے گئے تو ہمیں کامیابی ملے گی اور ہم دوبارہ میدان میں اتریں گے۔‘

2018 میں کارکردگی

خیبر پختونخوا میں ضلع دیر کو جماعت اسلامی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا تاہم 2018 کے عام انتخابات میں وہاں پر زیادہ تر نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تھیں۔

جماعت اسلامی نے 2018 کے عام انتخابات میں ضلع دیر سے صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست جیتی تھی لیکن وہ بھی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے۔ عنایت اللہ خان صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کر رہیں ہیں۔

بعد میں قبائلی اضلاع کے انتخابات کرائے گئے تھے جن میں باجوڑ سے جماعت اسلامی کے امیدوار سراج الدین کامیاب ہوئے تھے۔

اسی طرح سندھ اسمبلی میں بھی اس وقت متحدہ مجلس عمل کی پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کے رکن عبدالرشید کامیاب ہوئے تھے۔ پنجاب اسمبلی میں 2013 کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی کے ایک رکن وسیم اختر تھے جبکہ اس کے بعد عام انتخابات میں کوئی رکن اسمبلی نہیں پہنچا۔

بلوچستان اسمبلی میں جماعت اسلامی کا کوئی رکن نہیں ہے تاہم متحدہ مجلس عمل سے انتخابات میں حصہ لینے والے پانچ ارکان ابھی بلوچستان اسمبلی کا حصہ ہیں۔

قومی اسمبلی کی بات کی جائے تو اس وقت جماعت اسلامی کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی کا رکن نہیں ہے تاہم متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے والے عبدالاکبر چترالی قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

ضمنی انتخابات میں کارکردگی

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان، پشاور اور چارسدہ میں حالیہ ضمنی انتخابات میں تمام حلقوں پر جماعت اسلامی کے امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔

مردان کے حلقہ این اے 22 پر جماعت اسلامی کے امیدوار عبدالواسع آٹھ ہزار 239 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار عمران خان اور پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا محمد قاسم تھے۔

اسی طرح چارسدہ کے این اے 24 پر جماعت اسلامی کے امیدوار مجیب الرحمان سات ہزار 883 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے جبکہ پشاور کے این اے 31 پر جماعت اسلامی کے امیدوار محمد اسلم تین ہزار 816 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے تھے۔

 جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کا شمار ملک کے نامور سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ انتہائی نفیس شخصیت ہیں جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے ہے۔

سراج الحق

آٹھویں جماعت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیارکی اور آپ کی صلاحیتوں اور فرض شناسی کی وجہ سے آپ کو کچھ عرصے بعد ہی ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ آپ پاکستان میں اسلامی شریعت کی بنیاد پر اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور سود کے مخالف ہیں اور یہی وجہ ہے آپ پہلے پاکستانی سینیٹر اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہے جن کا کسی بھی بنک میں اکاونٹ نہیں ہے۔

سادگی پسند طبیعت کے مالک، متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے سراج الحق نے نظریاتی سیاست پر اپنی زندگی بسر کی لیکن وہ بھی اسے پارلیمانی سطح پر مقبول بنانے میں کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔

تجزیہ کاروں کی رائے

محمود جان بابر پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور جماعت اسلامی کی سیاست کو قریب سے دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے پاس اگریسیو (جارحانہ) رہنماؤں کی شدید کمی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں جب قاضی حسین احمد کبھی بھی کسی اتحاد کا حصہ ہوتے تو اس کی قیادت قاضی حسین آحمد ہی کرتے تھے کیونکہ باقی سیاسی جماعتوں کے رہنما سمجھتے تھے کہ قاضی حسین احمد کے سامنے باقی رہنماؤں کی حیثیت نہیں ہے۔

دوسری بات محمود جان بابر کے مطابق جماعت اسلامی کے پاس ملک کے موجود سیاست میں بیانیے کی کمی ہے اور اسی وجہ سے وہ عوام کو اس پر قائل نہیں کر سکتے کہ ان کو ووٹ دیں۔

محمود جان نے بتایا، ’موجود صورت حال میں دیکھیں تو پی ٹی آئی کا اپنا اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنا بیانیہ ہے لیکن جماعت اسلامی کے پاس کوئی مضبوط بیانیہ نہیں ہے کہ وہ عوام کو بتا سکے کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا بیانیہ ٹھیک نہیں ہے اور جماعت اسلامی کا بیانیہ بہتر ہے۔‘

محمود جان بابر کے مطابق بڑے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اگر آپ دیکھیں تو وہاں پر آپ کو جماعت اسلامی کی ٹرین کیے ہوئے رہنما ملیں گے چاہے وہ پی ٹی آئی ہوں، مسلم لیگ ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی۔

’جماعت اسلامی کے پاس یہ گر نہیں ہے کہ اپنی قیادت اور سپورٹرز کو کس طرح ایک بیانیہ دے کر اسی پر چلنے کو کہا جائے۔ ابھی سراج الحق کو اگر دیکھا جائے تو وہ اتنے پراگرسیو نہیں مانے جاتے ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔‘

 عادل شاہ زیب ڈان نیوز کے پروگرام کے میزبان ہیں اور پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بھی محمود جان بابر کے بیانیے والی بات سے متفق ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج کل ایک حکومت اور دوسری جانب حزب اختلاف کا بیانیہ ہے جبکہ جماعت اسلامی درمیان میں چل رہی ہے جو موجودہ حالات میں اس قسم کی طرز سیاست پر عوام یقین نہیں رکھتے۔

عادل شاہ زیب نے بتایا، ’جماعت اسلامی پرانی جماعت ہے لیکن وہ پارلیمانی سیاست میں آگے اسی وجہ سے نہیں آ رہی ہے کہ ان کے پاس کوئی خاص بیانیہ موجود نہیں۔ ابھی بھی ان کو جو ووٹ پڑتے ہیں، وہ زیادہ تر ان کے نظریاتی لوگوں کے ووٹ ہیں لیکن عوام لوگوں کی ووٹ حاصل کرنے لیے طرز سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

دوسری وجہ عادل شاہ زیب کے مطابق یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی فیصلہ ساز باڈیز جیسے کے مرکزی شوری ہوگئی، وہاں پر نوجوانوں کی کی کمی ہے جبکہ آج کل ووٹ کی تناسب سب سے زیادہ نوجوانوں کی ہی ہے۔

’پی ٹی آئی کو ہی دیکھ لیں کہ ان کی پوری سیاست نوجوانوں کے گرد گھومتی ہے اور یہی نوجوان ان کو کامیاب کراتے ہیں جب کہ دوسری جانب ان کی سوشل میڈیا پر موجودگی نے پی ٹی آئی کو بہت فائدہ دیا ہے۔‘

عادل شاہ زیب نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے گنے چنے لوگ ہی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جو اپنی بیانیے کی ترویج کر رہے ہیں جس میں ایک مشتاق احمد بھی ہیں اور آج کل اگر دیکھا جائے تو مشتاق ہی جماعت اسلامی کے بظاہر سب سے زیادہ مقبول رہنما ہیں۔

جماعت اسلامی کو تجزیہ نگاروں کے مطابق اپنے تنظیمی ڈھانچے اور بیانیے کو موجودہ حالات و واقعات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست