یوکرین میں ہار سے جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے: سابق روسی صدر

سابق روسی صدر نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب مغربی ممالک کی جانب سے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کے لیے اسے مسلسل جدید ہتھیار اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

نو مئی 2022 کی اس تصویر میں روسی دارالحکومت ماسکو میں جاری فوجی پریڈ کے دوران روس کے یارس بین البراعظمی میزائل کو نمائش کے لیے پیش کیا جا رہا ہے(اے ایف پی)

روسی صدر ولادی میر پوتن کے اتحادی اور سابق روسی صدر میدویدیف کا کہنا ہے کہ اگر روس کو یوکرین میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹر کے مطابق ٹیلی گرام پر ہونے والے ایک مباحثے، جس میں یوکرین کے لیے نیٹو کی حمایت پر گفتگو کی جا رہی تھی کے دوران میدویدیف کا کہنا تھا کہ ’کسی روایتی جنگ میں ایک جوہری طاقت کی شکست جوہری جنگ چھڑنے کی وجہ بن سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جوہری طاقتیں ایسی کوئی بڑی جنگ نہیں ہارتیں جن پر ان کے مسقبل کا انحصار ہو۔‘

سابق روسی صدر نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب مغربی ممالک کی جانب سے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کے لیے اسے مسلسل جدید ہتھیار اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

ان جدید ہتھیاروں میں امریکہ اور جرمنی کی فراہم کردہ فوجی گاڑیاں، برطانیہ کے فراہم کردہ ٹینک اور دیگر ملکوں کی جانب سے فراہم کیے گئے دفاعی نظام شامل ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق برطانیہ میں روسی سفارت خانے نے اس پیش رفت کے بعد جاری بیان میں کہا کہ ’تنازع والے علاقے میں ٹینکوں کی رسد جنگ کی آگ کو بھڑکانے ہی کام کرے گی جس سے شہری آبادی سمیت زیادہ ہلاکتیں ہوں گی۔‘

روس نے مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو ان جدید ہتھیاروں کی فراہمی پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے تاہم یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے اس مدد کو یوکرین کے دفاع کے لیے ’اہم‘ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روسی صدر پوتن کی جانب سے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ جسے وہ ’خصوصی فوجی کارروائی‘ قرار دیتے ہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی سب سے بڑی لڑائی اور 1962 میں کیوبن میزائل بحران کے بعد ماسکو اور مغربی ممالک کے درمیان محاذ آرائی کا سبب بن چکا ہے۔

پوتن کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے باوجود 11 ماہ سے جاری جنگ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

ادھر یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی کے مشیر نے کہا ہے کہ پوتن کو حقیقت کی طرف پلٹنے اور اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ روس مذاکرات نہیں چاہتا۔

مشیر میخائلو پودولیاک نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’روس نے اکیلے ہی یوکرین پر حملہ کیا اور شہریوں کو مار رہا ہے۔ روس مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

دونوں ممالک کے درمیان یہ بحران روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونبس میں لڑائی شروع ہونے کے آٹھ سال بعد سامنے آیا ہے جہاں تب سے نچلی سطح پر ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یوکرین اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان یہ کشیدگی اب تک جاری ہے۔

دوسری جانب یوکرین جنگ میں پے در پے شکستوں کا سامنا کرتے ہوئے پوتن نے ستمبر میں یوکرین میں لڑنے والی اپنی رضاکار فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے ریزرو فوجیوں کو بلانے کا اعلان کیا تھا۔

 تاہم اس اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا کر لیا گیا تھا۔

دوسری جانب صدر پوتن کے فوج میں بھرتی کے حکم نامے کے بعد ہزاروں افراد نے ملک سے فرار ہونے کی بھی کوشش کی تھی۔

ستمبر میں ہی امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن نے ماسکو کو نجی طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملے میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اس کے ’تباہ کن‘ نتائج ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا