میرے احساسات بھی کسی والد جیسے ہیں: بچوں کی جین بدلنے والا ڈاکٹر

ہی جیانکوئی نے جب یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے لولو اور نانا نامی دولڑکیوں کے جینز میں پیدائش سے قبل ترمیم کی تھی، تو وہ اس وقت جدید سائنسی تاریخ کے سب سے متنازع کاموں میں سے ایک کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔

28  نومبر 2018 کی اس تصویر میں چین سے تعلق رکھنے والے سائنس دان ہی جیانکوئی ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے(اے ایف پی)

دنیا کے پہلے ایسے بچے جس کے جینز میں ترمیم کی گئی تھی، کو پیدا کرنے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرنے والے سائنس دان نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان بچوں کا احترام کریں اور انہیں معمول کی زندگی گزارنے دیں۔

سنہ 2018 میں ہی جیانکوئی نے جب یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے لولو اور نانا نامی دولڑکیوں کے جینز میں پیدائش سے قبل ترمیم کی تھی، تو وہ اس وقت جدید سائنسی تاریخ کے سب سے متنازع کاموں میں سے ایک کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔

انہوں نے ایک سال بعد پیدا ہونے والے ایمی نامی تیسرے بچے کے جینز میں بھی ترمیم کی تھی۔

اس سائنس دان کو چین کی شینزین مین جنوبی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے برطرف کر دیا تھا اور وہ غیر قانونی طبی طریقوں کے جرم میں تین سال قید کی سزا کاٹ چکے تھے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ(ایس سی ایم پی) کے ساتھ منگل کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ بچے ’ایک نارمل، پرامن اور بلا روک ٹوک زندگی گزار رہے ہیں‘ اور دنیا کو اس کے لیے ’ان کا احترام‘ کرنا چاہیے۔

انہوں نے اخبار کو بتایا کہ ’یہ ان کی خواہش ہے اور ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے۔‘

ہی جیانکوئی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ سائنسی تحقیق کے لیے بچوں کی معمول کی زندگی میں خلل پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں اور ان کے اہل خانہ کی خوشی‘ ترجیح ہونی چاہیے۔

جینیاتی ترمیم کرنے کے اس متنازع تجربے سے قبل اس سائنس دان نے چین میں طبیعیات(فزکس) کی تعلیم حاصل کی اور بعد میں رائس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے۔

انہوں نے 2012 میں چین واپس آنے سے پہلے سٹینفرڈ یونیورسٹی سے جینوم سیکوئنسنگ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

سب سے پہلے انہوں نے چار سال قبل اپنے چینل پر ایک یوٹیوب ویڈیو میں جڑواں بچوں لولو اور نانا کی پیدائش کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بچے بھی دیگر بچوں کی طرح صحت مند اور گھر میں اپنے والدین گریس اور مارک کے ساتھ موجود ہیں۔‘

بعد ازاں ہانگ کانگ میں ہیومن جینوم ایڈیٹنگ کانفرنس سے متعلق دوسری بین الاقوامی کانفرنس میں انہوں نے اپنے کام کا دفاع کیا اور ایمی کی پیدائش کا اعلان کیا۔

ہی جیانکوئی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جینز ایڈیٹنگ ٹول سی آر آئی ایس پی آر، سی اے ایس نائن کا استعمال کیا، جو کچھ جینز کو داخل یا غیر فعال کرسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سی سی آر فائیو جین میں ترمیم کی، جو ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے ایچ آئی ای کا وائرس خلیوں میں داخل ہو کر انہیں ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل بناتا ہے۔

ان کے اس اعلان پر بہت تیزی سے ردعمل سامنے آیا۔ دنیا بھر میں بائیو میڈیکل اور ایڈز کے محققین نے اس تجربے پر ان کی مذمت کی۔ ایک مشترکہ بیان میں چینی بائیومیڈیکل سائنس دانوں نے ان کے تجربے کو ’خوفناک‘، ’قبل از وقت، اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا ہے۔

چینی حکومت نے فوری تحقیقات کا اعلان کیا، جس نے بعد ازاں انہیں ’غیر قانونی طبی طریقوں‘ کا قصوروار پایا۔

ایس سی ایم پی سے بات کرتے ہوئے ہی جیانکوئی نے کہا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ دنیا کے کسی بھی دوسرے والد کی طرح فکرمند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ کو ان سے بہت زیادہ توقعات ہوں گی، لیکن آپ کو بہت زیادہ بے چینی بھی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ تحقیق کے لیے رضامندی کے حصے کے طور پر وہ ان بچوں کی صحت کی صورت حال پر نظر رکھنے کے پابند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’18برس کی عمر کے بعد، یہ بچے فیصلہ کریں گے کہ آیا ان کی انفرادی ضروریات کے لیے میڈیکل فالو اپ کرنا ہے یا نہیں۔ ہم نے ان کی پوری زندگی تک ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

چینی سائنس دان کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کے لیے اضافی ہیلتھ انشورنس لینا چاہتے ہیں لیکن ان کے جینز تبدیل ہونے کے انکشاف کے بعد کوئی بھی انشورنس کمپنی ان کا انشورنس کرنے کو تیار نہیں ہے۔

یہ سائنس دان مستقبل کے کسی بھی غیر متوقع طبی اخراجات کی غرض سے بچوں کے لیے رقم جمع کرنے کی خاطر ایک خیراتی فاؤنڈیشن کھولنا چاہتے ہیں۔

تاہم اپنے عمل پر غور کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ ’میں نے اس میں جلدی کی۔‘

متعدد یونیورسٹیوں اور کانفرنسوں میں خطاب ان کے شیڈول کا حصہ ہے۔ اس شیڈول میں اگلے ماہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا طے شدہ دورہ بھی شامل ہے، جہاں وہ تولیدی طب میں سی آر آئی ایس پی آر جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی پر بات کریں گے۔

نایاب جینیاتی بیماریوں کے لیے سستی جین تھراپی پر کام کرنے کی غرض سے انہوں نے بیجنگ میں ایک لیبارٹری بھی قائم کی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت