جانوروں کو ان کے مسکن میں رہنے دو

پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر بتایا جا سکے کہ پاکستان میں شیر یا چیتے جیسے کتنے جانوروں کو پالتو حیثیت سے رکھا گیا ہے۔

اسلام آباد کے رہائشی علاقے سے پکڑا گیا ایک پالتو تیندوا، 17 فروری 2023 کو پنجرے کے اندر (اے ایف پی)

1980 کی دہائی کی بات ہے، کراچی کلفٹن میں ایک بڑا عالیشان مکان تھا۔ اس مکان کے مکین ہمارے جاننے والے تھے تو اس لیے ان کے یہاں آنا جانا تھا۔

مکان تو بڑا تھا ہی اس کا باغ بھی نہایت کشادہ تھا۔ ایک شام ہم بچے کھیلنے کے لیے گارڈن میں گئے تو ان کا نوکر پہرے پر موجود تھا۔ وہ ہمیں ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ہم کافی حیرت میں تھے کہ یہ کیوں نہیں جانے دے رہا تو ہم نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یار کیا ماجرا ہے اس سے آگے کیوں نہیں جا سکتے؟ تو اس نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ آگے جانور ہیں اس لیے بہتر ہے کہ ہم یہیں تک رہیں۔

’جانور ہیں؟‘ ہمارے ذہنوں میں یہی آیا کہ کوئی خوفناک کتے رکھے ہوئے ہوں گے جن سے ہمیں بچایا جا رہا ہے۔

کئی بار ان کے گھر گئے۔ پھر ایک دن جانوروں کا پردہ بھی فاش ہو گیا۔

مغرب کا وقت تھا اور ہم سب بیٹھے باتیں کر رہے تھا کہ ایک خوفناک آواز آئی۔ ہم سب گھبرا گئے۔ پھر آواز دوبارہ آئی اور پھر تین چار بار۔ معلوم ہوا کہ یہ جانور کوئی کتا نہیں بلکہ شیر تھا جو انھوں نے پالا ہوا تھا۔ اس دھاڑنے کی آواز ہمارے لیے کافی تھی کہ جنگل کا شیر بول رہا ہے اور ہم سب خاموش ہو گئے۔

معلوم ہوا کہ صرف شیر ہی نہیں بلکہ خطرناک سانپ بھی پالے ہوئے ہیں، لیکن چند سال بعد معلوم ہوا کہ شیر مر گیا ہے۔ کیسے مرا؟ ’وہ جی سانپ اپنے پنجرے سے کسی طرح نکل گیا تھا اور اس نے شیر کو کاٹ لیا۔‘

اب ہم فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں اور 16 فروری 2023 میں آتے ہیں۔ کراچی سے اسلام آباد آتے ہیں لیکن علاقہ وہی ڈیفنس ہی ہے۔ مبینہ طور پر ایک پالتو تیندوا مکان سے فرار ہو کر ڈیفنس کی سڑکوں پر نکل آیا۔ گھبرایا ہوا ایک گھر سے دوسرے گھر، کبھی ایک شخص پر لپکے اور کبھی دوسرے پہ۔

ان دو واقعات کے بیچ متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ ان سب میں ایک مماثلت ہے اور وہ یہ ہے کہ نہ تو اس وقت شیر، تیندوا، چیتا، ٹائیگر جیسے بڑے جانور رکھنے کی قانونی اجازت تھی اور نہ اب ہے۔  

ملک میں ایسے جانوروں کو پالتو رکھنے کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جو نایاب ہیں یا جو یہاں سے تعلق نہیں رکھتے جیسے شیر، بنگال ٹائیگر، چیتا وغیرہ۔

پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے علاوہ باقی صوبوں میں بھی اس کو شیڈول تھری میں رکھا گیا ہے جس کی رو سے اس کا شکار کرنا، پالنا اور خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے۔

ان کی درآمد اور انھیں بطور پالتو جانور رکھنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور جگہ کے قواعد بھی موجود ہیں۔ جن میں ان جانوروں کو رکھنے کی مناسب، قدرتی ماحول سے قریب تر کھلی جگہ، تحفظ اور خوراک کے مناسب بندوبست سمیت دوسرے انسانوں کے تحفظ اور دیگر باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔

جنگلی حیات بشمول شیر اور چیتوں کو باہر سے منگوانے کے لیے سب سے پہلے وفاقی وزارت ماحولیات سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کیا اجازت حاصل کرنے کے خواہمشند فرد کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود ہیں یا نہیں، جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی وزارت داخلہ کے پاس جاتا ہے۔

پاکستان کے اکثر شہروں میں پالتو جانور رکھنے کے شوقین افراد نے شیر، چیتے اور تیندووں کو بطور پالتو جانور رکھا ہوا ہے اور وہ اکثر عوامی مقامات یا نجی گاڑیوں میں ان کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر بتایا جا سکے کہ پاکستان میں ایسے کتنے جانوروں کو پالتو حیثیت سے رکھا گیا ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمینٹ بورڈ کے مطابق جس طرح سے یہ تیندوا حملہ کر رہا تھا اس سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی جنگلی جانور ہے اور شبہ ہے کہ یہ پالتو جانور ہے لیکن اس حوالے سے اب تحقیقات کی جائیں گی۔

پولیس نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے نامعلوم ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کے درج کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ تیندوا کسی نامعلوم شخص نے گھر میں پالا ہوا تھا اور ملزم نے خطرناک جانور رکھ کر شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔

پاکستان نے گذشتہ سال ہی ’بڑی بلیوں‘ کی درآمد پر پابندی عائد کی ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں ان جانوروں کو درآمد کیا جا سکتا تھا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت جب بھی جانور سرحد پار کرتا ہے تو کچھ قوانین لاگو ہوتے ہیں اور ان کی پاسداری لازمی ہوتی ہے۔

مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب یہ جانور پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان میں درامد کے حوالے سے تو قوانین ہیں لیکن ان کو رکھنے کے حوالے سے قانون نہیں ہے۔

بین الاقوامی ادارے کنزرویشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ سپیشیز آف وائلڈ فانا اینڈ فلورا (سائیٹس) کے مطابق صرف وہ جانور (مادہ شیر، چیتے وغیرہ) پاکستان میں درآمد کی جا سکتی ہیں جو بچے پیدا نہیں کر سکتیں۔ لیکن حکومت پاکستان نے اس بات کا خیال نہیں رکھا۔

سائیٹس کے مطابق پاکستان میں 2013 سے لے کر 2018 تک مختلف انواع کے 85 شیر، چیتے، ببر شیر وغیرہ درآمد کیے گئے جبکہ ان کے علاوہ 15 جانور ٹرافی ہنٹنگ کی صورت میں پاکستان آئے ہیں۔

ایک شیرنی ایک سال میں میں 12 سے 15 بچوں کو جنم دے سکتی ہے۔ حکومت نے اس بات کو مدنظر ہی نہیں رکھا کہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کیسے قابو میں کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح ان سوالات کے جواب بھی درآمد کی اجازت سے پہلے لیے جانے چاہیے تھے کہ ان جانوروں کو کہاں رکھا جانا ہے، ان کا خیال کیسے رکھنا چاہیے اور ان کو کسے آگے فروخت کرنا ممکن ہے؟

یہ سب نہ ہونے کے نتیجے میں شیروں کی بلیک مارکیٹ نے جنم لیا جو آج اربوں روپے کی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق افریقی شیر کا بچہ چار لاکھ میں بکتا ہے جبکہ ٹائیگر کے بچے کی قیمت دس لاکھ روپے تک ہے۔ کچھ عرصے قبل تک شیر کے بچے بطور تحفہ دیے جاتے تھے۔

اگر ان جانوروں کی درآمد کے حوالے سے قوانین بھی بن جائیں اور ان پر اطلاق بھی ہو تب بھی ان جانوروں کو بند جگہ پر رکھنا غیر انسانی ہے اور بالکل ایسا ہے جیسے کسی انسان کو جیل میں بند کر دیا جائے۔

ہم جانوروں کے بارے میں اس طرح نہیں سوچتے جیسے ہمیں سوچنا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ہم ان کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ان کا اپنا ایک فطری مسکن ہے جہاں رہنا ان کا حق ہے۔

شیر یا ٹائیگر یا تیندوا اگر بارہ فٹ کے پنجرے میں بند ہے تو یہ نجی چڑیا گھر یا فارم کے نام پر زیادتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ