ایرانی صدر کی جانب سے سعودی فرمانروا کی دعوت کا ’خیر مقدم‘

ایرانی صدر کے ڈپٹی چیف آف سٹاف برائے سیاسی امور محمد جمشیدی کے مطابق: ’صدر رئیسی کو لکھے گئے خط میں سعودی عرب کے فرمانروا نے دونوں برادر ممالک کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کیا اور انہیں ریاض آنے کی دعوت دی۔‘

19 مارچ 2023 کو تشکیل شدہ اس کولاج میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز 16 اکتوبر 2022 کو جدہ میں تقریر کر رہے ہیں جب کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 29 اگست 2022 کو تہران میں ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بند عبدالعزیز کی طرف سے مملکت کے دورے کی دعوت موصول ہوئی ہے۔

ایرانی صدر کے ڈپٹی چیف آف سٹاف برائے سیاسی امور محمد جمشیدی کے مطابق: ’صدر رئیسی کو لکھے گئے خط میں سعودی عرب کے فرمانروا نے دونوں برادر ممالک کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کیا (اور) انہیں ریاض آنے کی دعوت دی۔ صدر رئیسی نے دعوت کا خیر مقدم کیا۔‘

سعودی عرب اور ایران نے سات برس بعد تعلقات کی بحالی کے لیے رواں ماہ 10 مارچ کو ایک معاہدے کا اعلان کیا تھا، جس میں چین بطور مذاکرات کار موجود تھا۔

اس معاہدے کے بعد توقع ہے کہ ایران اور سعودی عرب دو ماہ کی مدت میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولیں گے اور تقریباً 20 برس قبل طے شدہ سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر عمل درآمد کریں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ممالک نے اپنے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے لیے تین مقامات تجویز کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان مقامات کی تفصیل بتانے سے انہوں نے اجتناب کیا۔

سعودی عرب، دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے اور ایران، جو اپنی جوہری سرگرمیوں پر مغربی حکومتوں کے ساتھ اختلاف میں ہے، کے درمیان یہ معاہدہ خطے میں کئی دہائیوں سے جاری ہنگامہ خیزی کے بعد صورت حال کو نئی شکل دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔

ایران اور سعودی عرب یمن سمیت متعدد متنازع علاقوں میں حریفوں کی حمایت کرتے ہیں۔ حوثیوں کو تہران کی حمایت حاصل ہے اور ریاض حکومت کی حمایت کرنے والے فوجی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متعدد خلیجی ممالک نے 2016 میں ریاض کے اقدام کی پیروی کی اور تہران کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے، البتہ متحدہ عرب امارات اور کویت نے حال ہی میں تعلقات بحال کیے ہیں۔

ایران نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کے بعد بحرین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرے گا۔

ماضی میں بحرین نے ایران پر الزام لگایا تھا کہ اس نے منامہ حکومت کو گرانے کے لیے مملکت میں بغاوت کی تربیت اور حمایت کی تھی، تاہم تہران اس کی تردید کرتا ہے۔

گذشتہ ستمبر میں، ایران نے چھ سال کے بعد اماراتی سفیر کا خیرمقدم کیا اور ایک ماہ قبل ایران نے بیان جاری کیا تھا کہ کویت نے 2016 کے بعد اپنا پہلا سفیر تہران میں بھیجا ہے۔

ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار علی شمخانی نے جمعرات کے روز ابوظہبی میں اماراتی صدر محمد بن زید ال نہیان کے ساتھ بھی بات چیت کی جو خطے میں بدلتے ہوئے تعلقات کا ایک اور مظہر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا