پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان میں انسانی حقوق کا نفاذ چاہتی ہے تو اسے طالبان کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر کرنا چاہیے۔
عمران خان نے برطانوی ٹی وی چینل 4 نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’افغان یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کیا کرنا ہے بتایا جائے۔‘
انٹرویو کے دوران ٹیلی ویژن کے سینیئر صحافی میٹ فرائے نے عمران خان سے سوال کیا کہ 'افغانستان میں بہت سے واقعات پاکستان کو متاثر کرتے ہیں، تو کیا آپ افغان طالبان سے کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو سکول جانے دیں؟'
عمران خان نے اس سوال کے جواب میں طالبان کو کچھ کہنے سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کو پہلے مرکزی دھارے میں لایا جائے پھر حقوق انسانی کی بات ہوسکے گی۔ ’میں افغانوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، کم از کم مغربی دنیا کے مقابلے میں افغان کیریکٹر کو زیادہ اچھا جانتا ہوں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں بتایا جائے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔‘
میٹ فرائے چینل فور سے قبل بی بی سی میں افغانستان کی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اگر مغربی ممالک طالبان پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو انہیں طالبان کو مرکزی دھارے میں لانا چاہیے۔ میں انہیں بتاتا رہا ہوں کہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ ان کے الفاظ میں، ’اگر آپ طالبان کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں تو ان پر آپ کا کیا اثر ہوگا؟‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ پہلے انہیں مرکزی دھارے میں شامل کریں اس کے بعد حقوق انسانی کی بات کریں۔ 'اس وقت طالبان کو آئسولیٹ کر دیا گیا ہے اور ان کے پیسے بھی منجمد کیے گئے ہیں تو وہ کسی کی کیوں سنیں؟'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان، جو 2018-2022 کے درمیان پاکستان کے وزیر اعظم تھے، اس وقت امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کو ترتیب دینے میں کردار ادا کیا تھا۔
عمران خان نے دنیا کو طالبان کے ساتھ بات چیت بڑھانے کا مشورہ دیا، جو ان کے بقول ان کی بات مان لیں گے۔ ’ابھی وہ آپ کی بات کیوں سنیں۔ وہ جب آپ ایسی بات کرتے ہیں تو ردعمل دکھاتے ہیں۔‘
عمران خان نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب طالبان نے اپنی حکومت کے آغاز سے ہی افغان لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم اور کام پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ لیکن طالبان نے کبھی کھل کر نہیں کہا کہ پابندیاں دنیا کے دباؤ کی وجہ سے ہیں۔
طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ اسلامی ماحول بنانے کے بعد خواتین کی تعلیم اور کام کا دوبارہ فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستانی سیاست کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے ملک مارشل لا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حکام پر انہیں مارنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت مارشل لا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس میں واضح کیا کہ ماضی کے برعکس موجودہ عسکری قیادت کے سیاسی عزائم نہیں ہیں۔