برطانیہ: افغان پائلٹ کو روانڈا بھیجنے کی ’دھمکی‘

افغان پائلٹ نے کہا: ’امریکی اور برطانوی افواج ہمیں بھول چکی ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا اور ہم نے ان کی اس طرح مدد کی جیسے وہ ہمارے بھائی تھے۔ ہم طالب نہیں ہیں، ہم داعش نہیں ہیں، تو وہ ہمیں اس طرح کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‘

افغان فضائیہ کے لیفٹیننٹ، جنہوں نے برطانوی افواج کے ساتھ کئی مشنز میں حصہ لیا (دی انڈپینڈنٹ)

برطانوی مسلح افواج کے شانہ بشانہ خدمات انجام دینے والے ایک افغان جنگ کے تجربہ کار پائلٹ بھی ان افراد میں شامل ہیں جو چھوٹی کشتیوں پر سوار ہوکر برطانیہ فرار ہوئے اور اب انہیں روانڈا جلاوطن کیے جانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

فضائیہ کے لیفٹیننٹ، جنہوں نے طالبان کے خلاف 30 جنگی مشن اڑائے اور اتحادی افواج کے سپروائزر نے انہیں ’اپنے ملک کا محب وطن‘ قرار دیا تھا، زبردستی چھپنے پر مجبور ہوگئے تھے، جن کا کہنا ہے کہ محفوظ راستے کے ذریعے برطانیہ پہنچنا ’ناممکن‘ تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ افغان فورسز کے ان بہت سے اہلکاروں میں سے ایک ہیں جنہیں امریکی اور برطانوی افواج نے ’بھلا‘ دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ’دوستی اور تعاون‘ کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔

افغانستان میں برطانوی افواج کے سابق سربراہ کرنل رچ کیمپ کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغانوں کی مدد کے لیے برطانیہ کا ابتدائی فوجی ردعمل اچھا تھا لیکن بہت سے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یہ ان کے لیے بہت مشکل ہوگا اور میرا خیال ہے کہ ہمیں ان کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘

اس وقت چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والے تارکین وطن میں سب سے زیادہ تعداد افغانوں کی ہے، جن میں سے نو ہزار سے زائد نے 2022 میں چینل کراسنگ کی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر اس نے فیصلہ کیا کہ کسی محفوظ یورپی ملک سے گزرنے کے باعث افغان برطانیہ میں پناہ کے لیے’نااہل‘ ہو جاتے ہیں، تو وہ انہیں روانڈا بھیج دے گی۔

دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا تھا کہ طالبان سے چھپ کر فرار ہونے والے افغانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ برطانیہ میں صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں جب ان کی دستاویزات افغان طالبان کی جانب سے منظور کی گئی ہوں۔

انڈپینڈنٹ کی تحقیقات کے بعد وزارت دفاع نے تفتیش کا آغاز کیا اور معذرت بھی کی ہے۔

وہ پائلٹ، جن کانام افغانستان میں ان کے اہل خانہ کی سکیورٹی کی غرض سے خفیہ رکھا گیا، اب پناہ گزینوں کے لیے مختص ہوم آفس کے ایک ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے پاس ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے برطانیہ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ وہاں کوئی قابل عمل محفوظ راستہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا: ’سقوط افغانستان کے بعد کون سا محفوظ اور قانونی راستہ تھا؟ آپ ایک دوست اور برادر ملک کی حیثیت سے افغانستان میں داخل ہوئے اور اب ہم پر یہ برا دن آ گیا ہے۔ (برطانوی حکومت کو) چاہیے کہ دوستی اور تعاون کا کیا گیا وعدہ پورا کرے۔

’امریکی اور برطانوی افواج ہمیں بھول چکی ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا اور ہم نے ان کی اس طرح مدد کی جیسے وہ ہمارے بھائی تھے۔ ہم طالب نہیں ہیں، ہم داعش نہیں ہیں، تو وہ ہمیں اس طرح کیوں چھوڑ رہے ہیں؟‘

انہوں نے کہا کہ کئی دیگر سابق افغان فوجی اہلکار بھی اسی صورت حال کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہر روز وہ ہمیں روانڈا یا ہمارے اصل ملک بھیجنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ افغانستان میں یہ ناممکن تھا اور ہمارے لیے برطانوی اور امریکی افواج کی مدد کا انتظار کرنا بالکل ناممکن تھا۔‘

اس پائلٹ کو بھیجی گئی ایک ای میل میں ہوم آفس کے ایک عہدیدار نے لکھا کہ اگرچہ انہوں نے ابھی تک ان کے کیس پر حتمی فیصلہ نہیں کیا، لیکن ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ وہ برطانیہ پہنچنے سے پہلے اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں تھے، جس کے ’اس بات پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کہ آیا آپ کا دعویٰ برطانیہ کے سیاسی پناہ کے سسٹم میں آتا ہے یا نہیں۔‘

ای میل میں کہا گیا: ’روانڈا اور برطانیہ کے درمیان مہاجرت اور اقتصادی ترقی کی شراکت داری کی شرائط کے تحت اس پائلٹ کو روانڈا منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘

پائلٹ کے اس دعوے کی حمایت ان کے ایک امریکی سپروائزر روڈنی لبریٹو کر رہے ہیں جو امریکی محکمہ خارجہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ پائلٹ ایک اچھا نوجوان، ایک شاندار بیٹا، بھائی، شوہر، باپ، دوست اور اپنے ملک کا محب وطن تھا۔‘

ہوم آفس کو لکھے گئے اپنے سفارشی خط میں روڈنی لبریٹو نے کہا کہ یہ پائلٹ ’ایک نوجوان تھا جس نے افغانستان میں اپنے ملک کی ترقی اور اتحادی افواج کی مدد کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی۔‘

اس پائلٹ کے سکواڈرن کے ایک اور رکن، جو ایران فرار ہوئے اور افغانستان واپس بھیجے جانے کے خوف میں زندگی بسر کر رہے تھے، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’برطانوی اتحادی افواج کا حصہ تھے اور ہم نے ان کے ساتھ کئی مشترکہ مشن کیے تھے۔ ہمارے تربیتی پروگرام کو بھی اتحاد کی معاونت حاصل تھی۔ میں برطانیہ آنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے وہاں رہنے اور اپنی زندگی بچانے کا حق ہے۔ ہم نے افغانستان کے لڑاکا پائلٹ کی حیثیت سے طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف جنگ میں بڑا کردار ادا کیا۔‘

برطانوی حکومت بار بار کہہ چکی ہے کہ لوگوں کے پاس غیر قانونی طور پر چینل عبور کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ پناہ حاصل کرنے کے لیے محفوظ اور قانونی راستے موجود ہیں۔ اس حکومت نے حال ہی میں ایک بل منظور کیا ہے جس کے تحت ایک چھوٹی کشتی میں سوار ہو کر برطانیہ آنے والے کسی بھی شخص کو ملک بدر کر دیا جائے گا اور واپس آنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔

ان قانونی راستوں میں سے ایک، افغان منتقلی اور معاونت کی پالیسی (اے آر اے پی) سکیم ہے جو، ان لوگوں کو برطانیہ لانے کے لیے ڈیزائن کی گئی جنہوں نے جنگ کے دوران برطانوی افواج کی مدد کی تھی۔

اس نے اب تک 11 ہزار سے زیادہ لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچایا ہے، لیکن اس سکیم کے تحت اہل افراد کے اہل خانہ سمیت مزید چار ہزار تین سو لوگ اب بھی نقل مکانی کے منتظر ہیں۔

 کیس ورکرز کو امید ہے کہ یہ افغان لیفٹیننٹ اے آر اے پی کی کیٹیگری 4 کے تحت اہل ہو سکتے ہیں، جو خصوصی مقدمات کے لیے ہے۔

افغان شہریوں کی دوبارہ آباد کاری سکیم (اے سی آر ایس) کے ذریعے 2021 کے انخلا کے بعد سے صرف 22 افراد کو برطانیہ لایا گیا ہے۔ یہ جنرل سکیم دوبارہ آبادکاری کے لیے درخواست دینے والے خطرے سے دوچار افغانوں کے لیے ہے۔

افغانستان میں برطانیہ کی وراثت کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کرنل کیمپ نے کہا: ’افغانستان اب دوبارہ اس مقام پر آ گیا ہے جہاں وہ نائن الیون سے پہلے تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اس پر ایسے جہادیوں کی حکومت ہے جو مغرب مخالف ہیں اور اگر کہا جائے تو وہ اپنی سرزمین سے حملے کرنے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہوں گے۔‘

انہوں نے فوری انخلا کو ’ایک تباہی قرار دیا جس نے یوکرین پر حملہ کرنے کے ولادی میر پوتن کے فیصلے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔‘

انہوں نے کچھ افغانوں کو برطانیہ لانے میں وزارت دفاع کے کام کو سراہتے ہوئے کہا: ’ایک حد تک کامیابی ملی، لیکن ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی مدد نہیں کی گئی اور انہیں تکلیف پہنچی، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایک بار جب آپ ملک سے سب کچھ واپس نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ کے پاس لوگوں کے انخلا کے لیے زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔‘

اس لیفٹیننٹ کے دعوے کی حمایت کرنے والے کیئرفورکیلس کے بانی کلیر موسلے کا کہنا تھا: ’ہمارے موکل نے برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا لیکن طالبان سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ ملنے کی بجائے انہیں خطرناک راستہ اختیار کرنا پڑا۔

’اب ہماری حکومت کا ارادہ ہے کہ ان جیسے لوگوں کو پناہ حاصل کرنے سے مکمل طور پر روک دیا جائے، انہیں غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جائے اور ایسی جگہوں پر زبردستی ملک بدر کر دیا جائے جہاں ہم ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔

’ہمیں ان بہادر پناہ گزینوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے سرحد عبور کرنے والے بھی رک جائیں گے، انسانی اسمگلروں کا کاروبار بند ہو جائے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔‘

ہوم آفس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عام طور پر محکمہ خارجہ انفرادی کیسز پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان سے فرار ہونے والے خطرے سے دوچار افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اب تک صورت حال سے متاثر ہونے والے تقریباً 24 ہزار 500 افراد کو برطانیہ واپس لا چکے ہیں۔

’ہم دوبارہ آبادکاری کے معاملات پر ہم خیال شراکت داروں اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے اور اہل افغانوں کے لیے محفوظ راستے کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا