اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور ہم مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں: فواد چوہدری

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سیاسی ڈیڈ لاک سے نکلنے کے لیے مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جس سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

حکومت اصل واقعات سے توجہ ہٹانے کے لیے چیف جسٹس کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے (اے ایف پی فائل فوٹو)

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ہفتے کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔

صدرِپاکستان نے عدالتی اصلاحات بل 2023 آئین کےآرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔

صدر پاکستان نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں اس خط کا حوالہ دیا جو انہوں نے بل کو واپس بھیجنے کے لیے لکھا ہے۔

صدر کے مطابق: ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنےاور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہو گا۔‘

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مزید لکھا ہے: ’آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بل آرٹیکل 184/3، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے، مجوزہ بل کامقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔‘

صدر پاکستان کے مطابق: ’آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیاردیتا ہے، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی، سپریم کورٹ رولز 1980 پر سال 1980 سے عمل درآمد کیا جارہا ہے، اس لیے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔‘

ان کے لکھے جانے والے خط کے مطابق: ’آرٹیکل 142 اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات پرقانون سازی کا اختیار ہے، فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں اوپر بیان کیے گئے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘


سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں کیا ہے؟

قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے۔ اس کے علاوہ مسودے میں از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

مجوزہ ترامیم کے مسودے کے مطابق اپیل پر سماعت 14 روز کے اندر مقرر کرنا ہو گی۔

مسودے کے مطابق ’نہ صرف ازخود نوٹس کیسز بلکہ کاز لسٹ، بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ بھی سینیئر ججوں کی کمیٹی دیکھے گی۔‘

وفاقی کابینہ سے منظور ہونے والے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی کا فیصلہ کثرت رائے سے ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 184/3 کے تحت آنے والی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بھی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔‘


اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور ہم مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں: فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال اور اس ڈیڈ لاک سے نکلنے کے لیے مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جس سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

انہوں نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا: ’ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو بات چیت کرنی چاہیے جس میں ہم بھی بیٹھیں گے۔ اسی طرح ایک دوسرے کو سپیس دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ ’اس کی ایک بنیاد ہے اور وہ یہ کہ آپ کو الیکشن کا حق تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم مذاکرات میں الیکشن کی بجائے باقی باتوں پر بات کریں۔‘

ان کے بقول: ’آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر انتخابات پر جاری اختلافات پر بات کریں اور رول آف دا گیم بنائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے لیے سپریم کورٹ کے تمام جج قابل احترام ہیں جب کہ اصل واقعات سے توجہ ہٹانے کے لیے حکومت چیف جسٹس کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’جن ارکان نے (قومی اسمبلی کی) قرارداد پر دستخط کیے وہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں، ورنہ اگلے 48 گھنٹوں میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا اور وہ سب نااہل ہو جائیں گے۔‘


ڈاکٹر علوی صدر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ہیں: شیری رحمان

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے صدر علویٰ کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ڈاکٹر علویٰ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کے صدر نہیں بلکہ اب بھی پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ بل نظرثانی کے لیے واپس بھیج کر ثابت کر دیا وہ ملک کے صدر نہیں بلکہ ابھی بھی تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

’انہوں نے پارلیمنٹ کے ہر فیصلے کو تحریک انصاف کی نظر سے دیکھا۔ بل موصول ہونے سے پہلے ہی وہ ایک انٹرویو میں اس پر اپنا موقف دے چکے تھے۔‘

شیری رحمٰن نے مزید لکھا: ’وہ اپنی پارٹی پالیسی کی پیروی کر رہے ہیں، صدر کے آئینی عہدے کی نہیں۔ صدر کہہ رہے کہ یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے؟ ساڑھے تین سال وہ صدر ہاؤس کو آرڈیننس فیکٹری کی طرح چلاتے رہے، وہ پارلیمنٹ کے اختیارات سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔ صدر پارلیمنٹ کو قانون سازی نا سکھائیں۔‘


قانون سازی عمران خان کی انا اور حکم کے تابع نہیں ہو سکتی: طلال چوہدری

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ قانون سازی عمران خان کی انا اور حکم کے تابع نہیں ہو سکتی۔ 

ہفتے کو ایک بیان میں ان کا کہنا تھا: ’قانون بھی بنے گا اور عدل کے حصول میں ترمیم بھی ہو گی۔

’پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں تو کیا بنی گالہ اور زمان پارک کے پاس ہے‘

انہوں نے مزید کہا کہ جن کی ’سیاسی سانسیں بند‘ ہونے والی ہے وہ دوسروں کو بھاشن نہ دیں۔ 

طلال چوہدری کا کہنا تھا: ’ترجمان پاکستان تحریکِ انصاف نے ایوانِ صدر سے قانون واپس بھیج دیا تاکہ لاڈلے کے لیے بینچ فکسنگ ہو سکے۔‘ 


وزیر اعظم کی ہدایت پر امریکہ کا دورہ منسوخ کیا: وزیر خزانہ

وفاقی وزیرخزانہ سینیٹراسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی ہدایت پر امریکہ کا دورہ منسوخ کیا۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں ان کے آئی ایم ایف کے اجلاس میں عدم شرکت سے متعلق ایک کنفیوژن پھیلایا جا رہی ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ اس وقت ملک میں ایک آئینی بحران پیدا کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں وفاق کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے لیے  20 ارب روپے ریلیز کرنے کا کہا ہے۔

’10 اپریل تک وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو پیسے فراہم کرنے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے اور الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ 11 اپریل کو عدالت کو آگاہ کرے کہ ان کو پیسے ملے ہیں یا نہیں۔

’ان حالات میں وزارت خزانہ اور پھر کابینہ کی اہم ذمہ داری ہے جس کا میں بھی رکن ہوں۔ وزات دفاع کو بھی 17 تاریخ تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا ان حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پروہ اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ کر رہے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ آئی ایم ایف نے مجھے منع کر دیا ہے۔ ’آئی ایم ایف ہمیں منع نہیں کر سکتا۔‘

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کے وقت بعض دوست ممالک نے بیرونی ادائیگی میں پاکستان کی معاونت کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو تحریری طور پر ضمانت دی تھی۔

’گذشتہ دو ہفتوں میں ایک دوست ملک نے دو ارب ڈالر کی تصدیق کی ہے، ایک اور دوست ملک سے ایک ارب ڈالر کی تصدیق کا انتطارہے جس کے بعد سٹاف لیول معاہدے کے لیے شرائط مکمل ہوجائیں گی۔

’حکومت اپنا کام مکمل کرچکی، ایک نئی پیش رفت ضروری ہوئی ہے کہ وزیراعظم نے 800 سی سی گاڑیوں اورموٹرسائیکلز کیلئے پیٹرول کی سکیم کی تجویز دی اوروزارت توانائی کوخدوخال طے کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس پر بھی آئی ایم ایف سے کئی راونڈ ہو چکے ہیں، ہمارے پاس ہر چیز کا جواب ہوتا ہے، جتنے بھی سوالات آئے ہیں اس کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست