لاہور: روبوٹک سرجری جو ’گھر کے ڈرائنگ روم سے بھی ہو سکتی ہے‘

پی کے ایل آئی میں یورولوجی کے شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں سرجریز کامیاب رہیں اور اب عید کے بعد ایسے مزید آپریشنز کیے جائیں گے۔

پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کےایل آئی) لاہور میں چند روز قبل روبوٹ کی مدد سے دو کامیاب آپریشن کیے گئے ہیں۔ 

پی کے ایل آئی میں یورولوجی کے شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں سرجریز کامیاب رہیں اور اب عید کے بعد ایسے مزید آپریشنز کیے جائیں گے۔

ان کے مطابق: ’ایک سرجری کینسر زدہ گردے کی کی اور ایک آپریشن ہم نے کیا جس میں مریض کے گردے کام نہیں کر رہے تھے۔ دونوں آپریشنز میں مریضوں کا ایک ایک بیمار گردہ نکال دیا گیا کیونکہ ان کا دوسرا گردہ صحت مند تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ دونوں مریضوں کو آپریشن سے پہلے بتایا گیا تھا کہ ان کی سرجری روبوٹ کے ذریعے کی جائے گی جو کہ ہسپتال میں ایک نیا طرز علاج ہے اور ان سے اس کے پیسے بھی نہیں لیے جائیں گے اور وہ اگلے دن گھر چلے جائیں گے تو وہ بہت خوش ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ان آپریشنز کے دوران ان کی ٹیم میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے دو سرجن ڈاکٹر ریحان محسن اور ڈاکٹر ریاض بھی شامل تھے۔

انہیں اس لیے مدعو کیا کیونکہ وہ پہلے سے ایس آئی یو ٹی میں یہ سرجریز کر رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے بتایا کہ اگر یہ آپریشنز معمول کے مطابق کیے جاتے تو سرجری میں دو سے اڑھائی گھنٹے لگتے اور مریض تین سے پانچ دن ہسپتال میں رہتے۔ 

’روبوٹ کی مدد سے ہم نے ایک سرجری ایک گھنٹہ پانچ منٹ میں کی جبکہ دوسری سرجری 55 منٹ میں مکمل ہوئی اور مریض اگلے دن گھر چلے گئے۔‘

ڈاکٹر ندیم کے مطابق: ’روبوٹ کی مدد سے کیے جانے والے آپریشن میں ہم انسانی جسم کے اندر کی صورت حال کیمرے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جس کا وژن ہائی ڈیفینیشن، ہائی ریزولوشن، دس گنا میگنی فائیڈ اور تھری ڈائمینشنل ہوتا ہے۔

’انسانی ہاتھ جسم کے ہر حصے میں نہیں جاسکتا لیکن روبوٹک انسٹرومنٹ پانچ ملی میٹر کا ہوتا ہے جو انسان کی چھوٹی انگلی سے بھی باریک آلہ ہے وہ جسم کے اندر جاتا ہے اور اس سے کام کیا جاتا ہے جس کا فائدہ کم سے کم وقت اور خون ضائع کیے بغیر یہ کام ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سرجری میں انسانی جسم میں کسی قسم کا کٹ نہیں لگایا جاتا بلکہ جسم میں صرف پانچ ملی میٹر کا سوراخ کیا جاتا ہے اس کے ذریعے آپریشن کیا جاتا ہے۔ کسی قسم کے ٹانکے نہیں لگتے بلکہ جب آپ آلہ جسم سے باہر نکالتے ہیں تو جلد بند ہو جاتی ہے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’جب جسم میں کہیں کٹ نہیں لگا تو مریض میں کسی قسم کی انفیکشن کا امکان بھی نہیں اور نہ ہی اسے ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پڑتی ہے اورمریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر ندیم کے مطابق روبوٹک سرجری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ چونکہ مریض اس سرجری کے بعد اگلے روز ہی گھر چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض کا ہسپتال میں زیادہ  دن رہنے کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے، مریض جلد صحت یاب ہو کر اپنے کام پر واپس چلا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سرجن یہ سرجری اپنا تھری پیس سوٹ پہن کر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہاتھ میں کافی لے کر بھی کر سکتے ہیں، انہیں آپریشن سے پہلے کی تیاری کی ضرورت نہیں کہ وہ ہاتھ دھوئیں، دستانے پہنیں یا سکرب  پہنیں۔ آپ یہ آپریشن روبوٹ کے کونسول کے ذریعے کہیں سے بھی بیٹھ کر کر سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ندیم کہتے ہیں: ’جیسے پلے سٹیشن پر گیم کھیلتے ہیں تو آپ کے ہاتھ میں ایک جوائے سٹک یا ٹی وی کا ریموٹ ہوتا ہے جس سے ہم چینل بدلتے ہیں بالکل ویسے ہی سرجن کے ہاتھ میں ایک ریموٹ ہوتا ہے جس میں تمام کنٹرولز ہوتے ہیں جن سے ہم روبوٹ کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں اور روبوٹ مریض کا آپریشن کر رہا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ روبوٹک سرجری میں آلات کو سٹرلائیز کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے آلات ایک مرتبہ ہی استعمال ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد انہیں تلف کر دیا جاتا ہے اور نئے آپریشن کے لیے نئی کٹ استعمال کی جاتی ہے جس کی قیمت 16 سو ڈالر ہے۔

’روبوٹ پورا ڈھکا ہوتا ہے اور اس کے بازؤں کو ہر وقت کوور رکھا جاتا ہے۔ آپریشن سے پہلے اس کے بازوؤں پر سٹریلائزڈ دستانے پہنا دیے جاتے ہیں۔ ‘

ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے بتایا: ’روبوٹ کے ذریعے ہر قسم کی سرجری کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایک ٹول ہے اور یہ ایک ہاتھ کی طرح ہے جس سے آپ ہر کام کر سکتے ہیں اسی طرح اس روبوٹ کے ذریعے بھی آپ ہر طرح کی سرجری کر سکتے ہیں۔‘

روبوٹک سرجری کی تاریخ

ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے بتایا کہ روبوٹک سرجری کا پہلا عمل 1997 میں فرانس میں ہوا تھا۔

پاکستان میں پہلا روبوٹ 2011 میں آیا تھا لیکن وہ فلاپ ہو گیا، اس کے بعد دوسرا آیا وہ بھی فیل ہو گیا جبکہ تیسرا روبوٹ ایس آئی یو ٹی نے چلایا جو کہ اب بھی کراچی میں چل رہا ہے جبکہ ایک روبوٹک یونٹ لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں چل رہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کیڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ نے یہ یونٹ اب لیا ہے۔ ’ہم نے اکتوبر 2022 میں اس کا افتتاح کرنا تھا لیکن پنجاب پری کیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں پانچ روبوٹک یونٹس چل رہے ہیں لیکن پبلک سیکٹر میں پی کے ایل آئی پہلا ہسپتال ہے جہاں یہ سہولت اب مہیا کر دی گئی ہے۔ 

روبوٹک یونٹس کا پبلک سیکٹر میں آنا کیوں ضروری ہے؟

اس حوالے سے ڈاکٹر ندیم کا کہنا تھا کہ صرف روبوٹ کی قیمت دو عشاریہ آٹھ ملین امریکی ڈالر ہے۔ ایک پروسیجر کا خرچ پانچ سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک آتا ہے جو کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہماری کوشش یہ تھی کہ یہ طریقہ علاج  پبلک سیکٹر میں متعارف ہو اور ہر آدمی کو بہترین سرجن، آلات اور بین الااقوامی طرز کی سہولت حاصل ہوجس کے لیے اس طریقے کا علاج کا پبلک سیکٹر میں آنا ضوری تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی مریض صاحب حیثیت نہیں ہے تو پھر چاہے کتنا ہی مہنگا علاج کیوں نہ ہوان کا ہر قسم کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ پی کے ایل آئی میں ہماری یہ خواہش تھی کہ روبوٹک یونٹ آئے اور اس سے عام آدمی کا علاج ہو۔ 

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی پی کے ایل آئی میں جدید طرز کی روبوٹک سرجریز کے آغاز پر خوشی کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر ندیم نے بتایا کہ چونکہ پی کے ایل آئی مسلم لیگ ن کی حکومت کا قدم تھا تاکہ جگر اور گردوں کی بیماریاں جو پاکستان میں بہت زیادہ ہیں کے علاج پر توجہ دی جائے اس لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے یہ قدم اٹھایا۔

پی کے ایل آئی میں دو ایسے لوگ تھے جو روبوٹکلی تربیت یافتہ تھے۔ پاکستان میں ایسا اور کہیں نہیں ہے۔ اس میں ایک ڈاکٹر نعمان ہیں جو کہ برطانیہ سے آئے ہوئے ہیں اور روبوٹک سرجن ہیں اور15 برس برطانیہ میں رہنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور دوسرے وہ خود ہیں۔

ہم دونوں کا پی کے ایل آئی میں یہی مطالبہ تھا کہ روبوٹک سرجری کے لیے چیزیں مہیا کی جائیں تاکہ ہماری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے جس کے بعد پی کے ائل آئی کی طرف سے سالانہ بجٹ میں اس کی اجازت لی گئی جس کے بعد ہم نے روبوٹک پروگرام خریدا اور یہاں اسے لگایا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت