ہمارے اماں ابا اکثر شکایت کرتے تھے کہ تم لوگ دھیان سے کام نہیں کرتے، استادوں کو بھی یہی شکایت تھی۔
اس وقت بے دھیانی کے سارے کھیل ہم لوگوں کے دماغ میں ہوتے تھے۔ پڑھنے بیٹھے ہیں، گھر میں کوئی کام کر رہے ہیں، کوئی سامان لینے گئے ہیں گھر کا، یا اماں ابا کا دیا ہوا کوئی کام کر رہے ہیں۔
دھیان کا وہ بٹ جانا اختیار میں ہوتا تھا۔ تب فرض کریں ہم لوگ کوئی کھیل اگر کھیلتے تھے تو پورا دماغ کھیل کی طرف لگ جاتا تھا۔ کوئی پسند کی چیز، جیسے قلفی کھاتے تھے تو پوری طبیعت سے اس کا مزہ لیتے تھے۔ اخبار پڑھنے کے لیے اٹھایا جاتا تو بھی اطمینان سے باہر والے دونوں صفحے دیکھے جاتے، پھر شوبز کا اور کالموں والا صفحہ دیکھتے، اس کے بعد کوئی اور کام شروع ہو جاتا۔
غائب دماغی اب بھی ویسی ہے لیکن اب اس کی واحد وجہ موبائل فون ہے، اب دماغ کے پاس رنگا رنگی کا وقت نہیں ہے۔ تب دماغ سوچا کرتا تھا اور بہت کچھ خیالوں میں ہوا کرتا تھا!
آپ ایسا کریں کہ موبائل کو دور رکھ کے دیکھ لیں، دماغ پھر بھی وہیں ہو گا، پاس کر لیں تو بھی ساری توجہ وہی کھینچ رہا ہے، سائلنٹ کر کے بندہ کچھ کرنے کھڑا ہو تب بھی مڑ مڑ کے اسی کی یاد آتی ہے اور اگر فون ہی کا استعمال ہو رہا ہے تو گھنٹوں بعد دماغ میں کرنٹ لگتا ہے کہ اوہو، اس وقت تو فلاں کام کرنا تھا۔
ہم میں سے 90 فیصد لوگ واش روم بھی موبائل ساتھ لے کے جاتے ہیں۔ اگلے زمانوں میں جو کام دس منٹ کا تھا اب اس میں بھی آدھا آدھا گھنٹہ لگتا ہے، کیوں؟ توجہ ہو گی تو بھیا کام ڈھنگ سے ہو گا، ورنہ بیٹھے رہیں اور انگوٹھے چلاتے جائیں۔
کچن میں بھی یہی ہوتا ہے۔ چائے اُبل اُبل کر دیگچی جلا دے گی، چولہا گندہ ہو جائے گا، کھانے میں کتنی مرچ ڈالی تھی، نمک کا حساب کیا تھا، کچھ یاد نہیں رہتا۔ برتن دھونے کھڑے ہوں، موبائل سے ٹن کی آواز آئے گی اور دھلا دھلایا برتن پھسل کے گر جائے گا۔ ہر کام میں عین یہی بدحواسی موبائل سے پہلے کے دنوں میں بھی ہوتی تھی لیکن یہ سب کچھ ہونا نسبتاً بہت کم ہوا کرتا تھا۔ اب شاید ہمیں ان سب چیزوں کی عادت ہو گئی ہے۔
گھر، سفر، دفتر ۔۔۔ تینوں جگہ پر آپ دو چیزوں کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ زمان، مطلب گزرتا وقت، اور مکان، یعنی کوئی بھی جگہ جس کے اندر آپ موجود ہیں، یا زیادہ وسیع معنوں میں زمین فرض کر لیں۔ موبائل آپ کو زمان و مکان سے آزاد کر دیتا ہے۔ وقت کی اہمیت باقی رہتی ہے نہ اس جگہ کی، جہاں آپ موجود ہیں۔
گھڑی موبائل سکرین کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن کسی بھی ایپ پہ وقت گزارتے ہوئے ہم سب کتنی مرتبہ اسے دیکھتے ہیں؟ غور کریں، آپ موبائل بند کریں گے، دو منٹ بعد اسے دوبارہ صرف وقت دیکھنے کے لیے کھولیں گے اور چل سو چل، ٹائم دیکھ کے دوبارہ پرانے دھندوں میں لگ جائیں گے۔
یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ موبائل کی چیزیں اس طرح سے بنائی جاتی ہیں کہ بندہ کھولے تو بس انہی کا ہو جائے لیکن اس سے بچنا کیسے ہے؟
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی موبائل کی شکل دیکھنے کی بجائے آدھے گھنٹے کا وقفہ لیں، سونے سے آدھا گھنٹہ پہلے بھی اس کی جان چھوڑ دیں، بلکہ سائلنٹ کر دیں۔ اس کے بعد اس وقفے کا ٹائم بڑھاتے جائیں۔ جب آپ دو گھنٹے کی ایوریج تک پہنچ جائیں گے تو اس کا مطلب ہوا کہ روزانہ چار گھنٹے آپ موبائل فری ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آٹھ گھنٹے نیند کے لگا لیں اور چار یہ والے ہو گئے جو اٹھنے کے بعد اور سونے سے پہلے بچائے تھے۔ باقی بارہ گھنٹے میں ایسا کیا ہو سکتا ہے کہ دماغ کو موبائل سے ہٹ کے تھوڑا بہت سوچنے کے لیے وقت مل جائے اور چیزیں یاد رہ سکیں؟
اس میں دو طریقے ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ صرف سِم کال کی آواز کھلی رکھی جائے اور باقی ہر ایپ کا نوٹیفیکیشن بند ہو۔ اس میں لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فون آپ اٹھاتے ہیں کال سننے کے لیے اور دوبارہ اسی پہ لگ جاتے ہیں۔
دوسرا طریقہ نسبتاً بہتر ہے، میں خود بھی وہی کرتا ہوں۔ ایک فون خرید لیجے بٹنوں والا، اس میں سِم ڈال لیجے۔ کال سننے کے لیے آپ کا یہ فون وقف ہو گیا، دوسرا موبائل یہی سمارٹ فون ہو گا جو اس وقت آپ کے پاس ہے۔ وٹس ایپ اس پہ چلتا رہے گا اور اس کو آپ مکمل سائلنٹ کر دیں گے۔
دنیا کا اب جو چلن ہے اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں ہی آپ کو سِم پہ فون کیا جاتا ہے ورنہ عام کالیں وٹس ایپ پہ آئیں گی یا میسنجر پہ، ان کو ہر دو گھنٹے بعد اکٹھے دیکھا جا سکتا ہے اور جہاں ضروری ہو رابطہ بھی ممکن ہے۔ فون آپ کو دو رکھنے پڑیں گے لیکن وٹس ایپ والا سمارٹ فون آہستہ آہستہ سائلنٹ کرنے اور زیادہ دیر کے لیے چھوڑ دینے کی عادت ہوتی جائے گی۔ دوسرا فون بے شک کھلا رہے، اس پہ فون آنا ہی کس کا ہے؟ جب ضرورت ہو گی تبھی آئے گا!
ایک فائدہ بٹنوں والے فون میں یہ بھی ہو گا کہ وہ بیٹری کم کھاتا ہے اس لیے چار پانچ دن بلکہ بعض فون تو دس دس روز بھی بغیر چارج کے نکال لیتے ہیں۔ مطلب خدانخواستہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایک فون مکمل طور پہ آپ کے پاس 24 گھنٹے موجود ہو گا۔
یہاں دو سوال باقی ہیں۔ ایک تو یہ کہ باقی بارہ گھنٹے میں کرنا ہی کیا ہے جو وقت بچائیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسی موبائل کو سائلنٹ کر کے اور سارے نوٹیفیکیشن میوٹ کرنے کے بعد اس پر فلم دیکھی جا سکتی ہے، کتاب پڑھی جا سکتی ہے یا گھر سے باہر جا کر بھی کچھ کھیلا جا سکتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک سے جان چھڑانے چلے تھے اور اب دو فون ہو گئے، تو یہ کیا بات ہوئی؟
بات یہ ہے کہ ہمیں دھیان لگانے کے لیے دماغ بچانا ہے، بات وہیں سے شروع ہوئی تھی۔ دماغ بچانے کے لیے اسے وقت دینا ہو گا اور یہ فرصت یا عیاشی تبھی ممکن ہے جب سمارٹ فون گاڑی کی سٹیپنی کی طرح ایک سہولت کی آپشن رہ جائے اور عام رابطے کے لیے آپ کے پاس، نان سمارٹ، پرانے زمانوں جیسا، بٹنوں والا موبائل فون موجود ہو!