سراج الحق کے قافلے پر حملہ ’حیران کن‘: مبصرین

مصبرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور قائدین پر کم حملے ہوئے ایسے میں سراج الحق کے قافلے پر مبینہ خود کش حملہ ’حیران کن‘ ہے۔

19 مئی، 2023: بلوچستان کے علاقے ژوب میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی گاڑی کے قریب دھماکے کا منظر (سکرین گریب)

پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور قائدین پر حملے بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں اور یہی وجہ ہے جمعے کو ژوب میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے قافلے پر مبینہ خود کش حملے کو مبصرین ’حیران کن‘ قرار دیتے ہیں۔ 

جماعت اسلامی نے  حملے کے بعد ایک بیان میں بتایا کہ سراج الحق بلوچستان کے علاقے ژوب میں جلسے میں شرکت کے لیے مرکزی شاہراہ سے گزر رہے تھے جب پیدل کارکنان میں شامل حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔

بیان کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوئے جبکہ امیر جماعت اسلامی محفوظ رہے۔

ابھی تک کسی تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے مذمتی بیان کے بعد چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں کہ جماعت اسلامی جیسی مذہبی سیاسی تنظیم پر کون حملہ کر سکتا ہے؟

عام تاثر یہی ہے کہ شدت پسند تنظیموں کا مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

سویڈن میں مقیم پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کے محقق عبدالسید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس حملے کو حیران کن قرار دیا۔

عبدالسید کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود نے 2018 میں قیادت سنبھالنے کے بعد تنظیم کی جنگ کو مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی بجائے صرف سکیورٹی فورسز تک محدود کیا ہے۔

’یہی امر اس پالیسی کے تحت ٹی ٹی پی کے اس حملے میں ملوث ہونے کی نفی کرتا ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں نام نہاد داعش کی پاکستانی شاخ بھی فعال ہے جس نے ماضی قریب میں ایک اور اہم سیاسی مذہبی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری پر خود کش حملے کا دعویٰ کیا تھا۔

’اگر داعش سراج الحق پر حملہ داعش کرتی تو اس کی ذمہ داری ضرور قبول کرتی۔‘

پاکستانی حکام ملک میں داعش کے منظم نیٹ ورک کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں۔

عبدالسید نے سراج الحق پر حملے کو پر اسرار اور مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا: ’بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بھی بظاہر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے سیاسی مقصد کے لیے جنگ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ کسی تنظیم کے کمانڈر یا گروپ نے خفیہ طور پر کیا ہو۔

’عموماً ایسے واقعات کی وجہ سے مخالف دھڑے منظر عام پر آتے ہیں۔‘ 

پشاور میں مقیم صحافی مشتاق یوسف زئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں چھوٹے شدت پسند دھڑے موجود ہیں اس لیے امکان ہے کہ یہ ایسی کسی غیر اہم اور چھوٹی تنظیم یا دھڑے کا کام ہو جو کسی مرکزی قیادت کو جواب دہ نہ ہوں۔

اس سے پہلے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے زیر قیادت جلسے کو 2012 میں خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں ایک خاتون خود کش حملہ آور نے نشانہ بنایا تھا۔ تاہم مرحوم امیر جماعت اسلامی محفوظ رہے تھے۔

روزنامہ ڈان کے مطابق اکتوبر2014  میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر کوئٹہ میں خود کوش حملہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے لیکن دو افراد جان سے گئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جنداللہ نے قبول کی تھی۔

اپریل 2011 میں بھی مولانا فضل الرحمان کے جلسے پر ضلع صوابی میں حملہ کیا گیا، جبکہ اس کے تقریباً 24 گھنٹے بعد چارسدہ میں ایک دوسرا حملہ کیا گیا تھا۔

دونوں واقعات میں مجموعی طور پر 23 جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور میں مقیم صحافی مشتاق یوسف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جماعت اسلامی ملک میں موجودہ صورت حال میں اسی وجہ سے اہم جماعت ہے کہ اس کا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ رویہ متوازن ہے۔

’لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ مسائل اور افہام و تفہیم سے سیاسی مسائل حل کرنے والی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہی ہے۔‘

تاہم انھوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دھماکے میں انسانی جانوں کا ضیاع زیادہ نہیں ہوا۔

’ایسے میں وہ تنظیم نے اس پر خاموش اختیار کر لی ہو۔‘ 

مشتاق یوسف زئی نے داعش کی ملوث ہونے کے حوالے سے بتایا کہ داعش حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔

’لیکن ابھی تک سراج الحق پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ داعش اس میں ملوث ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان