ماضی میں مختلف سیاسی رہنما کب اور کن مقدمات میں جیل گئے؟

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اکیلی نہیں ہے بلکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مختلف اوقات میں جیلیں کاٹی ہیں، مختلف حالات کا مقابلہ کیا ہے اور کئی تو سالوں تک جیلوں میں پڑے رہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اکیلی نہیں ہے بلکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مختلف اوقات میں جیلیں کاٹی ہیں، مختلف حالات کا مقابلہ کیا ہے اور کئی تو سالوں تک جیلوں میں قید رہے(تصاویر: اے ایف پی)

نو مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں اور کارکنان کے خلاف کارروائی جاری ہے اور گرفتار کیے جانے والے رہنماؤں اور کارکنان کو جیل کی ہوا کھانی پڑ رہی ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اکیلی نہیں ہے بلکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مختلف اوقات میں جیلیں کاٹی ہیں، مختلف حالات کا مقابلہ کیا ہے اور کئی تو سالوں تک جیلوں میں قید رہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بعض سیاسی قائدین کی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور ان کی جیلوں میں گزری زندگی کا احوال معلوم کرنے کی کوشش ہے۔

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان

خان عبدالغفار خان کا تعلق چار سدہ سے تھا جن کو ’فرنٹیئر گاندھی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کے خلاف باچا خان نے تاریخی مزاہمت کی تھی۔

باچا خان 1890 میں پیدا ہوئے تھے اور وہ خدائی خدمتگار تحریک کے بانی تھے جس کی بنیاد 1929 میں رکھی گئی تھی۔ تقسیم ہند سے قبل باچا خان اس خطے میں انگریزوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور پشتون آبادی پر مشتمل پشتونستان بنانے کی جدوجہد میں تھے۔

باچا خان کا عدم تشدد کا فلسفہ آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اور عدم تشدد کے فلسفے کے باجود باچا خان نے مختلف اوقات میں تقریبا 37 سال جیل کاٹی لیکن وہ اپنے نظریے سے نہیں ہٹے۔

پاکستان بننے سے قبل خیبر پختونخوا میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی صوبہ سرحد میں حکومت تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد وہ حکومت ختم کی گئی اور 1948 میں باچا خان کو جیل بھیج دیا گیا وہ 1954 تک جیل میں رہے۔

1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو باچا خان کو وزارت کی پیشکش کی گئی لیکن باچا خان نے انکار کیا۔

اس کے بعد ان کو 1964 تک جیل میں رکھا گیا اور خراب صحت کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔ برطانیہ میں علاج کے بعد انہوں نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔

جلاوطنی کے بعد 1972 میں وہ بھٹو کے دور میں واپس وطن آگئے جب باچا خان کے صاحبزادے عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت قائم کی لیکن 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے باچا خان کو ملتان میں گرفتار کرلیا اور 1976  میں رہا کردیا۔

باچا خان 1988 میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں انتقال کر گئے۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے ساتھ چار دہائیوں سے زیادہ وابستہ رہنے والی صحافی کیتھی گینن جو اب ریٹائرڈ ہوچکی ہے،  نے ان کی وفات کی خبر میں لکھا تھا، ’باچا خان نے برصغیر سے انگریزوں کو بھگانے میں مدد کی لیکن وہ اپنے ہی ملک میں تقسیم ہند کی مخالفت کی وجہ سے قید و بند کی صعبوتیں برداشت کرنے کے بعد دنیا سے چلے گئے۔‘

ذوالفقار علی بھٹو: ’یہ آخری ملاقات ہوگی‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کے مارشل لا دور میں 1972 میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے لیکن بعد میں جنرل محمد ضیاالحق نے بھٹو کو حکومت سے بے دخل کیا اور ذوالفقار علی بھٹو پر ان کے سیاسی حریف احمد رضا قصوری کی قتل کا الزام لگایا گیا۔

بھٹو کو جیل بھیج دیا گیا اور چار اپریل 1979 کو اسی قتل کے مقدمے میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز آرکائیوز میں موجود اس وقت بھٹو کی پھانسی کی خبر میں لکھا گیا ہے کہ ’پھانسی دینے کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو، اہلیہ نصرت بھٹو گرفتار تھیں اور ضیاالحق نے انہیں نظر بند کیا ہوا تھا۔‘

پھانسی سے قبل اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ تین گھنٹے پر محیط آخری ملاقات تک خاندان والوں کو معلوم نہیں تھا کہ بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق بے نظیر بھٹو کو پتہ چل گیا تھا کیوں کہ انہوں نے جیل سے ایک خفیہ خط اپنے وکیل کو بھیجا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ’مجھے کسی نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔‘

پھانسی کے بعد پی پی پی کے مظاہرین کو روکنے کے لیے تمام تر انتظامات کیے گئے تھے اور پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بیٹی بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی، انتخابات میں حصہ بھی لیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔

جیل کے سیل سے ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے نام ایک خط بھی لکھا تھا۔

نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے گو کہ کم عرصہ ہی جیل میں گزارا ہے لیکن ان کی پارٹی کی حکومت کو مختلف ادوار میں ختم کیا گیا ہے۔

نواز شریف کی حکومت کو 1999 میں سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں اس وقت ختم کیا جب نواز شریف نے انہیں آرمی چیف کے عہدے سے ہٹایا اور مشرف کے طیارے کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان میں اترنے نہیں دیا۔

اس کے جواب میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے نوازشریف کو حکومت سے بے دخل کیا۔ نواز شریف کو اس وقت گرفتار کیا گیا اور انہیں پرویز مشرف کے طیارے کو ہائی جیک کرنے اور مسافروں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

بعد میں نواز شریف 2000 میں سعودی عرب روانہ ہوگئے اور 2007 میں گارڈین اخبار کے مطابق ’مشرف کے ساتھ ڈیل کے تحت سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔‘

اس کے بعد 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن 2016 میں پاناما پیپرز میں نام آنے کے بعد نواز شریف پر مقدمہ درج ہوا اور بعد میں عمران خان نے نواز شریف کے خلاف مہم شروع کیا اور اسی مہم کے دوران عدالت نے نواز شریف کی بدعنوانی کی تفتیش کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 2017 میں نواز شریف کو پاناما کیس میں نا اہل کردیا گیا اور قومی احتساب بیورو نے نواز شریف کو 2018  میں 10 سال قید کی سزا سنائی لیکن بعد میں اپیل کرتے ہوئے عدالت نے تین ماہ بعد نواز شریف کی سزا معطل کر کے ان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

رانا ثنااللہ

پاکستان مسلم لیگ کے موجودہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو 1999 کے مارشل کے بعد بغاوت اور مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستان ہیومن رائٹس واچ کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق رانا ثنااللہ نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ مارشل لا کے تین دن بعد ان کو ان کے بیڈروم سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق رانا ثنااللہ نے بتایا کہ ’10 سے 20 پولیس اہلکاروں نے جیپ میں ڈالا اور کینٹ کے طرف لے گئے اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ اس کے بعد وہاں پر مجھے کوڑے مارے گئے اور کوڑے مارنے کے بعد ڈاکٹر میری دل کی دھڑکن بھی چیک کرتے رہے۔

’کوڑے مارنے کی وجہ سے کمر سے خون آنا شروع ہوگیا اور مجھے 20 مرتبہ کوڑے مارے گئے تھے اور مجھے اتنا مارا گیا تھا کہ میرے کپڑے خون کی وجہ سے جسم سے چھپک گئے۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق رات کے تقریبا تین بجے رانا ثنااللہ کو گجر سنگھ پولیس سٹیشن واپس لایا گیا اور وہاں پر دسمبر 1999 تک رکھا گیا۔

سیل میں روشنی کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور صرف ایک مرتبہ دن میں کھانا ملتا تھا۔

پانچ جنوری 2000 کو لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنااللہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ اسی دوران پاکستان مسلم لیگ کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

آصف علی زرداری

بےنظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی تقریباً 14 سال بد عنوانی، اغوا اور قتل کے الزامات میں جیل کاٹی ہے۔

پہلی مرتبہ جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو پراسیکا بریٹینیکا کے مطابق 1990 میں آصف زرداری کو بد عنوانی کے سکینڈل میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1993 میں ان کو عدم ثبوت کی بنا کر رہا کردیا گیا۔

گرفتاری کے دوران ہی وہ 1990 سے 1993 تک قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے اور جیل سے وہ اسمبلی اجلاسوں میں حصہ لیتے رہے۔

اس کے بعد آصف زرداری کو 1996 میں دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو کے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کے مقدمے سمیت منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیا لیکن ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور ان کو رہا کر دیا گیا۔

رہائی کے بعد وہ علاج کی غرض سے امریکہ چلے گئے اور 2008 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔

کیا چند رہنماؤں کی علیحدگی سے جماعتیں ختم ہوتی ہیں؟

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاون کے بعد مختلف رہنماؤں نے سیاسی جماعت سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کیا ایسے رہنماؤں کی علیحدگی سے سیاسی جماعتیں ختم ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایم ریاض پشاور میں مقیم صحافی ہیں جو گذشتہ تقریبا 40 سالوں سے ملک کے سیاسی صورتحال کو دیکھ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ سخت وقت میں مختلف رہنما پارٹی کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔

ایم ریاض نے بتایا کہ ’70 کی دہائی سے اگر شروع کیا جائے تو اس وقت 1977 میں جب ضیاالحق نے اقتدارپر قبضہ کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو بے دخل کیا، تو اس وقت پارٹی کے سرکردہ رہنما جیسے کے عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفٰی کھر، مولانا کوثر نیازی جیسے رہنما دباؤ برداشت نہ کر سکے۔

’اسی طرح بعد میں ایم ریاض کے مطابق جب 1999 میں نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کیا گیا تو پوری پاکستان مسلم ق بنی تھی اور اس وقت چوہدری برداران، سیف اللہ برداران، ایوب خان کی فیملی سمیت کئی سرکردہ رہنماؤں نے نواز شریف سے راہیں جدا کی تھیں اور مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے نام سے پارٹی بنائی تھی۔‘

ایم ریاض نے بتایا کہ ’یہی ہم خیال گروپ بعد میں پاکستان مسلم لیگ ق بنی تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ ن اپنا سفر جاری رکھا تھا اور ابھی تک وہ سفر جاری ہے۔‘

کیا چند رہنماؤں کی پارٹی چھوڑنے سے پارٹی ختم ہوجاتی ہے؟

اس کے جواب میں ایم ریاض کا کہنا تھا کہ ’ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ بعض موقعوں پر تو ایسا ہوا ہے کہ پارٹی چھوڑنے کے بعد دوسرا گروپ بنایا جاتا ہے جو کہ ختم ہوجاتا ہے لیکن مرکزی پارٹی موجود رہتی ہے۔

سینیئر صحافی نے بتایا: ’سخت وقت میں مختلف رہنما سیاسی جماعتیں چھوڑتے ہیں لیکن ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ ایک تاریخ رکھنے والی جماعت چند رہنماؤں کی چھوڑنے کے بعد ختم ہوگئی ہو۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ایک مثال موجود ہے کہ 70 کی دہائی میں اس وقت کئی رہنما چھوڑ کر چلے گئے لیکن پارٹی ابھی تک موجود ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست