آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی ضرورت نہیں: وفاقی وزیر خزانہ

رواں مالی سال 2022 سے 2023 اقتصادی سروے کے مطابق اس مالی سال کے تمام معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی ہی دکھائی دی۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا حکومت نے مجموعی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی (انڈپینڈنٹ اردو)

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو کہا ہے کہ ملک کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے اور انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت اپنی مرضی سے مذاکرات کرے گی۔

دوسری جانب رواں مالی سال 2022 سے 2023 کے اقتصادی سروے کے مطابق تمام معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی ہی دکھائی دی۔ 

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا حکومت نے مجموعی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ آئی ایم ایف سے  قرض پروگرام کی بحالی کے موضوع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ’پلان بی‘ ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا: ’پچھلے دور میں تین اہداف تھے۔ اس سال کے پانچ اہداف مقرر کیے گئے ہیں جنہیں ’فائیو ایز‘ نام دیا جا سکتا ہے اور اسی کے مطابق معاشی روڈ میپ تیار کیا گیا ہے۔ سال 2017 میں پاکستان جس پوزیشن پر تھا ملک کو وہاں لے کر جانا ہے۔‘ 

اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے جن معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی ہوئی ان میں زراعت، صنعت، خدمات اور سرمایہ کاری شامل ہیں جبکہ خسارے، اخراجات اور نقصانات میں اضافہ ہوا۔ 

اقتصادی سروے کے مطابق شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) 0.29 فیصد رہی جو گذشتہ برس 6.1 فیصد تھی۔

وفاقی وزیر نے اس میں کمی کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور سیلاب کو قرار دیا۔

گذشتہ مالی سال زراعت کے شعبے کی گروتھ یا زرعی ترقی 4.40 فیصد ریکارڈ ہوئی تھی جبکہ رواں مالی سال یہ کم ہو کر 1.55 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 

اسحاق ڈار نے کہا جولائی سے مئی کے دوران مہنگائی کی شرح 29.2 فیصد رہی۔

’ہم نے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا۔ معیشت میں گراوٹ کا عمل رک گیا ہے، اب استحکام اور ترقی اہداف ہیں۔ گذشتہ دو ماہ سے ڈیفالٹ، ڈیفالٹ کی باتیں ہو رہی تھیں، ہم سب کو مل کر معاشی استحکام کے لیے کوشش کرنی چاہیے، جب اقتدار سنبھالا تو مالیاتی خسارہ بہت زیادہ تھا، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔‘

اقتصادی سروے کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو گذشتہ برس 72.3 ارب روپے تھا رواں سال کم ہو کر 51.2 ارب روپے ہو گیا ہے۔
پچھلے مالی سال کے 11 ماہ میں مہنگائی کی شرح 11.3 فیصد تھی جبکہ جولائی تا مئی 2023 اوسط افراط زر 29.2 فیصد رہی۔

رواں مالی سال کے 11 ماہ میں ٹیکس محصولات میں 16 فیصد اضافہ ہوا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں مالی سال کے 10 ماہ میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد رہا، مالیاتی خسارے کا حجم تین ہزار 929 ارب روپے رہا۔

رواں مالی سال 10 ماہ میں جاری کھاتوں کا خسارہ تین ارب 30 کروڑ ڈالر رہا، رواں مالی سال کے 11 ماہ میں تجارتی خسارہ 25 ارب 80 کروڑ ہے۔ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں غیرملکی سرمایہ کاری 23 فیصد کمی کے بعد ایک ارب 17 کروڑ ڈالر رہی۔

رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن 1568 ڈالر رہی جبکہ گذشتہ سال فی کس آمدن 1765 ڈالر تھی، وزیر خزانہ نے آمدنی میں کمی کی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور آبادی میں اضافے کو قرار دیا ہے۔ 

وزیر خزانہ کے مطابق گندم کی پیداوار گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 5.4 فیصد زیادہ ہے جبکہ گنے کی پیداوار گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2.8 فیصد اضافے کے ساتھ نو کروڑ 11 لاکھ ٹن رہی۔

ان کے مطابق کپاس کی پیداوار 41 فیصد کمی کے ساتھ 49 لاکھ بیلز رہی، چاول کی پیداوار 21 فیصد کمی کے ساتھ 73 لاکھ ٹن رہی جبکہ لائیو سٹاک میں 3.7 فیصد کی ترقی، جنگلات میں 3.9 اضافہ ہوا۔ 

وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

’بدقسمتی سے بیرون ملک کچھ افراد یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پاکستان سری لنکا کیوں نہیں بنا؟ افواہوں کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا۔‘

بعد ازاں میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس پلان بی ہے، آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پروگرام 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت اپنی مرضی سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت