پاکستان سمیت کئی ممالک کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ:رپورٹ

رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال میں عالمی کشیدگی کے باعث چین، پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

یکم اکتوبر 2023، کی اس تصویر میں چین کے جوہری مواد لے جانے والے میزائل ڈی ایف 41 کو بیجنگ میں جاری ایک فوجی پریڈ کے دوران نمائش کے لیے پیش کیا جا رہا ہے(اے ایف پی)

حال ہی شائع ہونے والی ایک بین الااقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بڑے ممالک میں کشیدگی کے باوجود کئی ملکوں کے جوہری اثاثوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

عالمی سطح پر تنازعات، فوجی اخراجات اور ہتھیاروں کی تجارت کی نگرانی کرنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ری سرچ انسٹی ٹیوٹ کی حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران گو کہ عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود چین، پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا کے جوہری اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  کے ڈائریکٹر ڈین سمتھ کا کہنا ہے کہ ’ہم دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی کمی کے ایک طویل عرصے کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں یا وہاں پہنچ چک ہیں۔‘

سپری (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق 2022  کے آغاز میں نو جوہری طاقتوں برطانیہ، چین، فرانس، بھارت، اسرائیل، شمالی کوریا، پاکستان، روس اور امریکہ کے درمیان جوہری وار ہیڈز کی کل مقدار 12 ہزار 710 تھی جو 2023 کے آغاز میں 12 ہزار 512 رہ گئی تھی۔

ان میں سے نو ہزار 576 ہتھیار فوجی ذخائر میں ممکنہ استعمال کے لیے موجود تھے جو گذشتہ سال کے مطابق میں 86 ہتھیار زیادہ تھے۔

سپری ان ممالک کے استعمال کے لیے دستیاب ہتھیاروں اور کل ذخیرے کے درمیان فرق کرتا ہے۔ جن میں تلف کرنے کے لیے مخصوص پرانے ہتھیار بھی شامل ہوتے ہیں۔

سمتھ کا کہنا ہے کہ ’یہ ذخیرے قابل استعمال جوہری ہتھیاروں پر مشتمل ہیں اور ان اعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ اعداد 1980 کی دہائی میں موجود 70 ہزار ہتھیاروں سے ابھی بھی کافی دور نہیں ہیں۔‘

ان میں زیادہ تر اضافہ چین کا تھا جس نے اپنے ذخیرے کو 350 سے بڑھا کر 410 کر دیا ہے۔

اس دوران انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا نے بھی اپنے ذخیرے میں اضافہ کیا ہے اور روس کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد چار ہزار 477 سے بڑھ کر چار ہزار 489 ہو گئی، جبکہ باقی جوہری طاقتوں نے اپنے ہتھیاروں کا حجم برقرار رکھا۔

روس اور امریکہ ابھی بھی دنیا بھر کے جوہری ہتھیاروں کے 90 فیصد حصے کی ملکیت رکھتے ہیں۔

سمتھ کا کہنا ہے کہ ’بڑی تصویر یہ ہے کہ ہمارے پاس جوہری وار ہیڈز کی تعداد میں کمی کے 30 سال گزر چکے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ عمل اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘

سپری کے محققین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کی سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ نے اس حملے کے بعد روس کے ساتھ اپنے ’باہمی استحکام پر مبنی سٹریٹیجک مذاکرات‘ کو معطل کر دیا۔

رواں سال فروری میں ماسکو نے اعلان کیا تھا کہ وہ سٹریٹیجک ہتھیاروں میں مزید کمی اور حد بندی کے لیے 2010 کے معاہدے میں شرکت کو معطل کر رہا ہے۔

سپری کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’یہ روسی اور امریکی سٹریٹجک نیوکلیئر فورسز کو محدود کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کا آخری معاہدہ تھا۔‘

سمتھ کے مطابق ’اس ذخیرے میں اضافے کی وضاحت یوکرین کی جنگ سے نہیں کی جا سکتی کیونکہ نئے وار ہیڈز تیار کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ کہ زیادہ تر اضافہ ان ممالک میں ہوتا ہے جو براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔‘

چین نے اپنی معیشت اور اثر و رسوخ بڑھانے کے ساتھ اپنی فوج کے تمام حصوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

سمتھ کے مطابق ’ہم جو دیکھ رہے ہیں کہ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے، یہ ہمارے وقت کی حقیقت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپری کی اس رپورٹ پر تاحال حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ حکام کی جانب سے کوئی موقف سامنے آنے پر اسے اس خبر میں شامل کر دیا جائے گا۔

سپری کی رپورٹ میں جن ممالک کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے تاہم ایران کے جوہری پروگرام کی پیش رفت تاحال واضح نہیں ہے۔

آئی اے ای اے کے علاوہ عالمی طاقتیں اور علاقائی ممالک بھی ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار اور تنقید کر چکے ہیں۔

ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ہی خلیج تعاون کونسل نے گذشتہ روز (اتوار کو) کہا ہے کہ ’ایران کو چاہیے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی کی حد سے تجاوز نہ کرنے کا عہد کرے۔‘

 جی سی سی نے کہا کہ ’ایران کی جانب سے بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کی ضرورت ہے۔‘

کونسل نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ہونے والے تمام مذاکرات میں اپنی شرکت کی اہمیت پر زور دیا۔ جی سی سی نے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں سلامتی کے تمام مسائل کو شامل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

کونسل نے کہا کہ ’ہر اس چیز سے نمٹنے کی ضرورت ہے جس سے میری ٹائم نیوی گیشن اور تیل کی تنصیبات کو خطرہ ہو۔‘

خلیج کی عرب ریاستوں کے لیے تعاون کونسل کی وزارتی کونسل کا 156 واں اجلاس اتوار کو جنرل سیکرٹریٹ کے ہیڈ کوارٹر ز میں سلطنت عمان کے وزیر خارجہ بدر بن حمد بن حمود البوسیدی کی سربراہی میں منعقد کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا