پنجاب: سٹامپ پیپر ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی تجویز

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات کے مطابق پاور آف آٹارنی کے لیے استعمال ہونے والے سٹامپ پیپرز پر ڈیوٹی کی فیس دو ہزار روپے سے تین ہزار جبکہ طلاق کے لیے سٹامپ ڈیوٹی کی مد میں فیس 100 روپے سے ایک ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

پنجاب میں نئے مالی سال کے لیے سٹامپ ڈیوٹی کی مد میں 64 ارب روپے کی آمدن جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے (پبلک ڈومین)

محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے مختلف سٹامپ پیپرز کی ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی تجاویز حکومت کو پیش کر دی گئی ہیں۔

جس کے مطابق پنجاب میں نئے مالی سال کے لیے سٹامپ ڈیوٹی کی مد میں 64 ارب روپے کی آمدن جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

اس فیصلے سے سٹامپ پیپر فروشوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا، جن کے مطابق کاغذ کی قلت کی وجہ سے مارکیٹ میں سٹامپ پیپرز پہلے ہی کم ہیں اور قیمتوں میں اضافے سے ان کی مکمل دستیابی ممکن نہیں رہے گی۔

وکلا کے مطابق لین دین یا جائیدادوں کے انتقال کے ساتھ سماجی مسائل کے حوالے سے بھی متوسط طبقے کو سٹامپ کی قیمتوں میں اضافے سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سٹامپ ڈیوٹی میں کتنا اضافہ تجویز کیا گیا؟

محکمہ خزانہ کی جانب سے حکومت کو پیش کردہ مجوزہ اہداف کی دستاویزات کے مطابق بیان حلفی کے استعمال ہونے والے سٹامپ پیپر کی قیمت 100 سے بڑھا کر 300 روپے اور پراپرٹی کی فروخت پر معاہدے کے لیے 12 سو روپے کی بجائے تین ہزار روپے کے سٹامپ پیپرز استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اسی طرح کسی بھی معاہدے کے لیے سٹامپ پیپر کی ڈیوٹی تین ہزار سے 30 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات کے مطابق پاور آف آٹارنی کے لیے استعمال ہونے والے سٹامپ پیپرز پر ڈیوٹی کی فیس دو ہزار روپے سے تین ہزار جبکہ طلاق کے لیے سٹامپ پیپر ڈیوٹی کی مد میں 100 روپے سے ایک ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

نئے مالی سال 2023۔24 میں فنانس کمیٹی کی تجاویز پر سٹامپ ڈیوٹی پر چھ اعشاریہ چھ ارب روپے کا اضافی تخمینہ ہے۔

اس معاملے پر صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’اس بار چونکہ نگران کابینہ ہی چار ماہ کے بجٹ کی منظوری دے گی، اس لیے حسب ضابطہ محکموں کی تجاویز پر کابینہ میں ہی منظوری کے بعد بجٹ منظور ہوجائے گا، تاہم اگر کسی محکمے کی جانب سے ترامیم کی جائیں گی تو انہیں بھی شامل کیا جائے گا ورنہ حکومت محکموں کے اہداف اور اخراجات کی مد میں مجوزہ رقوم کی منظوری دے گی۔‘

سٹامپ ڈیوٹی بڑھنے سے مشکلات

لاہور کی عدالتوں میں مختلف مقدمات کی پیروی کرنے والے عبداللہ نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عدالتوں میں دائر درخواستوں کے ساتھ سٹامپ پیپر لگانا ضروری ہوتے ہیں۔ پہلے ہی اتنے اخراجات ہوتے ہیں جن میں وکیلوں کی فیس اور دستاویزات تیار کروانے کا خرچہ شامل ہے، اس کے ساتھ اب سٹامپ پیپر بھی مہنگے ہو رہے ہیں، اس سے عام آدمی کے لیے اضافی اخراجات بڑھ جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ معمول کے مطابق بھی سٹامپ پیپرز مقررہ قیمت سے زیادہ میں دستیاب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب مہنگے ہوں گے تو اضافی قیمت ادا کرنا پڑے گی اور ہر درخواست یا لین دین کے معاہدوں کے ساتھ سٹامپ پیپر لگائے بغیر درخواست یا کاغذات جمع نہیں ہوتے۔‘

سٹامپ فروش یونین کے عہدیدار عامر سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سٹامپ فروشوں کو سارے سٹامپوں کی ایڈوانس رقم حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کروانا پڑتی ہے، لہذا جب سٹامپ ڈیوٹی بڑھتی ہے تو جہاں ہمیں ایک لاکھ روپے جمع کروانے پڑتے ہیں، قیمت بڑھنے سے وہاں 10 لاکھ روپے تک صرف اس ایک سٹامپ کے لیے جمع کروانا پڑتے ہیں۔‘

عامر سلطان کے مطابق: ’ہمیں مختلف قیمت کے سٹامپ رکھنے پڑتے ہیں، لہذا جتنے مہنگے سٹامپ ہوں گے ان کے لیے ایڈوانس میں اتنی ہی زیادہ رقم جمع کروانا ہوگی۔

’سٹامپ فروشوں کو جب سٹامپ مہنگے پڑیں گے تو ہم لوگوں کو بھی مہنگے دیں گے۔ بعض امیر لوگ آتے ہیں تو انہیں شاید اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن بیشتر غریب لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس سستے سٹامپ خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ جب سو والا سٹامپ ہزار روپے کا ملے گا تو وہ کیسے خریدیں گے؟‘

عدالتی کارروائیوں میں بھی سٹامپ پیپر خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے قانون دان میاں داؤد ایڈووکیٹ سے گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ ’عدالتوں میں جتنی بھی درخواستیں دائر ہوتی ہیں ان کے ساتھ مختلف سٹامپ استعمال ہوتے ہیں، اس کے بغیر درخواست دائر ہی نہیں ہوسکتی۔ سول مقدمات ہوں یا فوجداری ان میں یہی طریقہ کار چلتا ہے، لہذا کئی موکل تو سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے ان چیزوں پر توجہ ہی نہیں دیتے لیکن کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تو ان سے اضافی رقم ادا کر کے سٹامپ خریدنے کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گھریلو اختلافات، لڑائی جھگڑوں کے مقدمات یا جائیدادوں سے متعلق جو کیس آتے ہیں، ان میں بیشتر مڈل کلاس یا متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، ان کے لیے تو وکیلوں کی فیسیں یا دیگر اخراجات برداشت کرنا مشکل ہے تو مہنگے سٹامپ کیسے خریدیں گے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت