یونان کشتی حادثہ: کیا پاکستانیوں کا یورپ جانے کا خواب دھندلا گیا؟

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ ماہ کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے 69 سمگلنگ ایجنٹوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی مشکل ہوسکتی ہے۔

غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش میں کئی ہفتے لیبیا میں گزارنے کے بعد محمد نعیم بٹ واپس اپنے ملک پاکستان لوٹ گئے۔

انہوں نے یہ پُرخطر سفر اس لیے ترک کر دیا کیونکہ رواں موسم گرما میں پہلے ہی سینکڑوں پاکستانی کشتی حادثات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ٹرک پر ریت لوڈ کرتے ہوئے نعیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے بہتر زندگی کے لیے یورپ پہنچنے کی اپنی کوشش اس وقت ختم کر دی جب گذشتہ ماہ یونان کے ساحل کے قریب ایک ڈوبنے والی کشتی میں سینکڑوں پناہ گزین جان کی بازی ہار گئے تھے۔

ڈوبنے والے چھ سو افراد میں سے ساڑھے تین سو پاکستانیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں 24 کا تعلق کشمیر میں نعیم کے آبائی شہر کھوئی رٹہ سے تھا۔

نعیم نے بتایا: ’پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ میں نے جو خطرہ مول لیا تھا وہ میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

نعیم کھوئی رٹہ کے ان متعدد افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ لیبیا پہنچنے کے بعد کشتی حادثے نے انہیں سفر ترک کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے کہا: ’زندگی آپ کے بچوں اور شریک حیات کے ساتھ گزارے جانے والے قیمتی وقت کا نام ہے نہ کہ اس بارے میں کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے۔‘

معاشی بحران سے گزرنے والے ملک کے دسیوں ہزار نوجوانوں نے اپنے خاندان کی جمع پونجی ان ایجنٹوں کے حوالے کر دی ہے جو انہیں یورپ سمگل کرنے کا خواب دکھاتے ہیں۔

نعیم نے بھی اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے مدد مانگی۔ ان کی بیوی نے اپنے زیورات بیچ کر 22 لاکھ روپے دیے جو انہوں نے انسانی سمگلروں کو ادا کر دیے۔

اس کے سفر کا پہلا مرحلہ آسان تھا یعنی دبئی اور مصر وہ کمرشل پروازیں سے پہنچے اور وہاں سے زمینی راستوں سے لیبیا جہاں ان کی اصل آزمائش شروع ہونے والی تھی۔

نعیم نے چھ سو دیگر پناہ گزینوں کے ساتھ ایک عارضی کیمپ میں دو مہینے گزارے جہاں وہ اس دن کا انتظار کرنے لگے جب انہیں بحیرہ روم کے پار سفر کرنے کے لیے ایک مال بردار جہاز پر سوار کیا جانا تھا۔

نعیم نے کہا کہ مال بردار جہاز کی بجائے انہیں مچھلی پکڑنے والی ایک کشتی پر سوار کیا گیا جو مسافروں سے کچھا کچ بھری پڑی تھی۔ آٹھ دن بین الاقوامی پانیوں میں جھومتے ہوئے گزارے جہاں لیبیا کی بحریہ کے ایک جہاز نے ان پر پہلے فائرنگ کرتے ہوئے حملہ کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ طوفان کے باعث لیبیا کے جہاز نے ان کا تعاقب ختم کر دیا اور وہ سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر تھے لیکن کچھ دن بعد انہیں واپس بندرگاہ پر لے جایا گیا جہاں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔

نعیم نے کہا کہ ’انہوں نے ہمیں زندہ رکھنے کے لیے بہت کم خوراک دی۔ تھوڑی سی میکرونی یا ابلے ہوئے چاول کی ایک پلیٹ پانچ لوگوں میں بانٹ دی جاتی تھی۔‘

جب وہ جیل میں تھے تب یونان میں پناہ گزینوں کی کشتی ڈوبنے کی خبر ان کے آبائی شہر تک پہنچی جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا اور انہیں بہت تکلیف ہوئی۔

نعیم کی اہلیہ مہوش مطلوب نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے یہ ایک ہفتہ جس درد اور تکلیف سے گزارا اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

31  سالہ مہوش نے شال سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا: ’مجھے ایسا لگا جیسے میری پوری دنیا میرے سامنے بکھر گئی ہو۔‘

نعیم آخر کار جیل سے باہر آ گئے اور اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ وہ زندہ ہیں۔

ان کی والدہ، 76 سالہ رضیہ لطیف کہتی ہیں کہ اب وہ اس تکلیف پر پچھتا رہی ہیں جو انہوں نے برداشت کی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے سوچا کہ دوسرے لوگ یورپ جا رہے ہیں تو کیوں نہ اسے بھی بھیجا جائے۔‘

والدہ کے بقول: ’ہم بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اتنا مشکل ہے۔‘

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے بحیرہ روم کے راستے کو ہجرت کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک کا راستہ قرار دیا ہے۔

صرف رواں سال تقریباً 1,728 پناہ گزین اس راستے پر لاپتہ ہوئے ہیں جب کہ 2022 میں یہ تعداد 1,417 تھی۔

لیکن جن خاندان کے ایک یا ایک سے زیادہ افراد بیرون ملک مقیم ہیں ان کی جانب سے بھیجی گئی رقم سے وہ خوشحال ہو سکتے ہیں۔

کشمیر کے ہیومن رائٹس فورم گروپ سے وابستہ ظفر اقبال غازی نے کہا کہ یورپ میں مقیم افراد کے رشتہ داروں اور دیگر خاندانوں کے درمیان دولت کا نمایاں فرق ’حسد‘ کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اگر کسی کے پاس ایک منزلہ گھر ہے تو اس کے بالکل ساتھ ہی آپ کو تین منزلہ گھر اور بڑی کوٹھیاں ملیں گی۔‘

حمزہ بھٹی سعودی عرب میں ڈرائیور کے طور پر دو لاکھ روپے ماہانہ کما رہا تھے جو ان کی بیوی اور ان کے آٹھ ماہ کے بیٹے کی کفالت کے لیے کافی تھے لیکن پھر بھی وہ یورپ جانے کے خواب کے پیچھے دوڑ پڑے۔

29  سالہ حمزہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے یقین تھا کہ یورپ میں زندگی سعودی عرب کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور رنگین ہو گی۔‘

حمزہ کو اس وقت جیل بھیج دیا گیا جب ان کی کشتی کو لیبیا کے حکام نے بندرگاہ پر واپس بھیج دیا اور کشتی ڈوبنے کی خبر کے بعد وہ نعیم سے مل گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ میری لالچ تھی جو مجھے موت کے دہانے پر لے گئی۔

ظفر اقبال غازی نے کہا کہ صرف کھوئی رٹہ سے 175 سے زائد نوجوان گذشتہ سال غیر قانونی طور پر یورپ کے لیے روانہ ہوئے اور ان کا خیال ہے کہ یونان میں کشتی کے واقعے کے بعد اس رجحان میں وقفہ عارضی ہوگا۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ ماہ کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے 69 سمگلنگ ایجنٹوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی مشکل ہوسکتی ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے اے ایف پی سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’چیلنج یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نوجوانوں کے پاس دبئی کا قانونی ویزا ہے جسے وہ لیبیا پہنچنے کے لیے نقطہ آغاز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اور یہ یونان کی کشتی کے سانحے کے بعد ختم نہیں ہوگا۔‘

یورپی یونین کے قانون سازوں نے برسلز پر زور دیا ہے کہ وہ رکن ممالک کو سمندر میں ریسکیو کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے مدد فراہم کرے لیکن پناہ گزینوں کے لیے یورپ بھر میں رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے جہاں یونان پناہ کے متلاشیوں کے لیے سہولیات میں مسلسل کمی کر رہا ہے۔

مہوش کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نعیم دوبارہ کبھی سفر کی کوشش نہیں کریں گے حالانکہ سمگلروں نے اس امید پر ان کی ادائیگی کا کچھ حصہ واپس کر دیا تھا کہ حکام کو ان کی اطلاع نہیں دی جائے گی۔

ان کے بقول: ’مجھے اپنے زیورات کھونے کا افسوس نہیں ہے اور جب تک نعیم میرے ساتھ ہیں میں غربت میں زندگی گزارنے پر راضی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان