وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا ہے کہ یونان کشتی حادثے میں ملوث 86 میں سے 54 انسانی سمگلرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم کمیٹی نے ایف آئی اے کی بریفنگ مسترد کرکے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں یونان کشتی حادثے سے متعلق متعلقہ حکام کو طلب کیا گیا تھا۔
چیئرپرسن کمیٹی مہرین رزاق بھٹو کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزارت خارجہ، ایف آئی اے اور وزارت انسانی حقوق کے حکام نے شرکت کی۔
وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک سے باہر پیش آنے والے واقعات وزارت خارجہ کی ڈومین میں آتے ہیں، جس کے بعد وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ یونان کشتی حادثے میں اب تک 15 پاکستانیوں کی موت اور 12 کے زندہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ زندہ بچ جانے والا ایک پاکستانی وطن واپس پہنچ گیا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں مختلف اداروں کے مابین کوآرڈینیشن سیل قائم کیا گیا ہے اور باقی زندہ بچ جانے والوں کو تحقیقات کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے رکن زیب جعفر نے سوال کیا کہ ’زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں سے کون تحقیقات کر رہا ہے؟‘ جس پر وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ ’زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانی یونان میں حراستی سینٹر میں ہیں اور یونانی حکام ان سے اپنے قوانین کے مطابق تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اینٹی ہیومن سمگلنگ سیل نے کمیٹی کو بتایا کہ غیر قانونی طور پر امیگریشن کشمیر اور پنجاب کے کچھ علاقوں سے ہوتی ہے۔
ایف آئی اے حکام نے یہ بھی بتایا کہ ’یونان کشتی حادثے میں ملوث 86 میں سے 54 انسانی سمگلرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور 295 افراد کے لواحقین نے ابھی تک ہم سے رابطے کیے ہیں۔‘
جس پر سعودی عرب سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کرنے والے کمیٹی رکن قادر مندوخیل نے ایف آئی اے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اور دیگر ادارے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں سعودی عرب میں 10 ہزار سے زائد غیر قانونی پاسپورٹ پکڑے گئے۔‘
قادر مندوخیل نے انسانی سمگلنگ میں مبینہ طور پر ملوث ایف آئی اے افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ ’ایف آئی اے آج اعداد و شمار بتا رہا ہے، پہلے یہ کہاں تھے؟‘
جس پر ایف آئی اے حکام نے جواب دیا کہ ’ایئرپورٹ پر نگرانی ہوتی ہے لیکن تھوڑی بہت قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘ جس پر چیئر پرسن کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تھوڑی بہت خلاف ورزی کیا ہوتی ہے؟ کیا ایف آئی اے اندازوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے؟ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے آپ کیا ٹھوس اقدامات کریں گے؟‘
مہرین رزاق بھٹو نے ایف آئی اے حکام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’اس صورت حال میں ایف آئی اے کا ہیومن ٹریفکنگ سیل کیا کر رہا ہے؟ اتنے لوگوں کی جانیں چلی گئیں، اسے کس طرح کنٹرول کرنا ہے؟ کمیٹی آپ کی باتوں سے مطمئن نہیں ہے، بتایا جائے کہ اتنے بڑے واقعے کی ذمے داری کس پر جاتی ہے؟‘
کمیٹی نے وزارت خارجہ کو زندہ بچ جانے والے نوجوانوں کو پاکستان لانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے کی سفارش کی اور اس معاملے پر بروقت جواب نہ دینے والے محکموں کو خط لکھنے کا بھی فیصلہ کیا۔ کمیٹی رکن زیب جعفر نے تجویز دی کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے متعلقہ وزارتوں کو خط لکھنے کی ضرورت ہے۔
اراکین نے اجلاس کے دوران کئی سوالات بھی اٹھائے۔ شائستہ پرویز ملک نے سوال اٹھایا کہ ’ہم جب بھی کسی ملک کا ویزہ اپلائی کرتے ہیں تو ہم سے واپسی کے ٹکٹ کا پوچھا جاتا ہے۔‘ عالیہ کامران نے مطالبہ کیا کہ ’جو لوگ یہ کاروبار چلا رہے ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے۔‘ کمیٹی رکن زیب جعفر نے کہا کہ ’جب تک غربت ہے، ایسا ہوتا رہے گا، جو لوگ باہر جانا چاہتے ہیں انہیں حکومت سہولیات فراہم کرے۔‘
اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے ایف آئی اے کی بریفنگ مسترد کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔
یونان کشتی حادثہ
گذشتہ ماہ 14 جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی بین الاقوامی پانیوں میں یونان کے ساحل کے قریب حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گئی تھی، جس میں سینکڑوں پاکستانی بھی سوار تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 104 افراد کو بچایا گیا اور 82 لاشیں ملی ہیں، لیکن زندہ بچ جانے والے افراد کے اعداد و شمار کے مطابق جہاز میں 750 افراد سوار تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق کشتی میں 350 کے قریب پاکستانی سوار تھے۔
کئی خاندان حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملبے کو سمندر کی تہہ سے نکال کر اس میں موجود سینکڑوں افراد کی لاشیں برآمد کی جائیں۔
جبکہ یونان کے حکام نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ جس مقام پر کشتی ڈوبی، وہاں گہرائی تقریباً پانچ ہزار میٹر ہے، جس کے باعث ملبہ نکالے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔
جہاز کے تباہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے بھی تحقیقات جاری ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ ان کا جہاز یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے کھینچنے کی تباہ کن کوشش کے بعد الٹ گیا تھا، تاہم یونان اس بات کی تردید کرتا ہے۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) بھی اس معاملے کی تحقیقات میں مصروف ہے اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ حادثے کا شکار ہونے والوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے نمونے اور فنگر پرنٹس بھیجے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یونانی حکام کی جانب سے تصدیق کے بعد لاشیں پاکستان منتقل کی جائیں گی۔