پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی اسمبلی نو اگست کو تحلیل کر دی جائے گی اور واضح کیا کہ عام انتخابات میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر ایک مرتبہ انتخابات کو التوا میں ڈالا گیا تو پھر یہ کب ہوں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انتخابات ڈیجٹیل مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے جو حال ہی میں مکمل ہوئی۔ ان کے اس بیان کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ کہنا جانے لگا کہ ایسی صورت میں تو انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ایک انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ’جس مردم شماری پر تحفظات ہیں اس کے تحت انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ آئین سے کوئی شق نکالی جائے گی۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کروانے سے متعلق بیان پر اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دوسری پارٹیوں نے خدشات کا کھل کر اظہار کیا تھا۔
سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ آئین میں انتخابات کی تاخیر کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے اور اگر مردم شماری کے نتائج کی منظوری ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہو جائے گا، جس میں کم از کم چار مہینے اور اپیلوں کے لیے مزید دو ماہ درکار ہوں گے۔
’یوں تو پھر چھ ماہ صرف اسی عمل میں گزر جائیں گے۔ ہم دودھ کے جلے ہوئے ہیں چھاچھ کو بھی پھونکتے ہیں۔ انتخابات ایک مرتبہ مؤخر ہوئے تو پھر کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
خورشید شاہ نے بتایا: ’نگران وزیراعظم کے لیے ہماری کمیٹی نے پانچ نام فائنل کر لیے ہیں، وہ نام لیڈرشپ کو بھیجیں گے۔ اگر لیڈرشپ نے مناسب سمجھا تو ٹھیک ہے نہیں تو وہ خود بھی کسی نام کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘
پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما نے کہا کسی بھی رکن قومی اسمبلی، سینیٹر، وفاقی وزرا، سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق سینیٹر کو نگران وزیراعظم نہیں بننا چاہیے۔
’بہت سے لوگ موجود ہیں۔ بہتر لوگ مل جائیں گے۔ نگران وزیراعظم کے لیے ریٹائرڈ سیاستدان بھی بہت ہیں۔ صاف شفاف الیکشن ہوں، اگر خورشید شاہ کو آپ نگران وزیراعظم کے لیے نامزد کریں گے تو پھر کون اعتبار کرے گا کہ انتخابات صاف شفاف ہوئے؟ اور میں بھی شفاف انتخابات نہیں کرواتا، اس لیے تمام جماعتوں کو اس کا خیال رکھنا پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مردم شماری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مردم شماری پر ان کے حلقوں کا مسئلہ ہے اور ’پنجاب کی پانچ نشستیں بلوچستان میں جا رہی ہیں اور اس کے لیے آپ کو حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی، جس کے لیے چار ماہ چاہیے اور اپیلوں کے لیے دو ماہ چاہیے اس طرح تو چھ ماہ گزر جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا آئین کسی صورت انتخابات میں تاخیر کی اجازت نہیں دیتا ’بالکل آئین میں یہ موجود ہے کہ اگر مردم شماری ہو گی تو حلقہ بندیاں ہوں گی یہ واضح ہے لیکن آئین میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
حکومت کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے متعلق تاحال باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو رات 12 بجے ختم ہو رہی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ اس مدت سے پہلے ہی ذمہ داریاں نگران حکومت کو سونپ دیں گے۔