نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے: شہباز شریف

شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف وطن واپسی پر اپنے کیسز کا سامنا کریں گے۔

شہباز شریف 25 اگست، 2023 کو لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد (سکرین گریب راجہ انصر خان/ٹوئٹر)

سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو لندن میں اعلان کیا کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے۔

شہباز شریف نے جمعے کو لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی، جس کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی پارٹی کی سینیئر قیادت سے مشاورت کے بعد طے پائی ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف واپسی پر پاکستان میں قانون کا سامنا کریں گے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آئین کی روح کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کی اور اب الیکشن کمیشن کی قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عام انتخابات کروائے۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے میں بطور سیاسی جماعت مکمل معاونت کرے گی۔ ’نواز شریف کی ہدایت پر پارٹی رہنماؤں نے آج الیکشن کمیشن سے ملاقات کی ہے۔‘

نواز شریف ایک ’کرپشن کیس‘ میں سزا پانے کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے، جس کے بعد ان کی واپسی نہیں ہوئی۔

شہباز شریف عام انتخابات سے قبل نواز شریف سے اہم سیاسی امور پر بات چیت کے لیے 21 اگست کو لندن پہنچے تھے۔

نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ن لیگ کی قیادت مختلف تاریخیں دیتی آئی ہے۔

شہباز شریف نے 10 اگست کو ایک ٹی وی چینل پر گفتگو میں کہا تھا کہ نواز شریف ستمبر میں واپس آ رہے ہیں۔

ان کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں خواجہ آصف، محمد زبیر اور جاوید لطیف نے بھی ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کی واپسی کے لیے ستمبر کا مہینہ بتایا تھا۔

سابق وزیر داخلہ اور ن لیگ کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ نے نواز شریف کی واپسی کی بار بار مختلف تاریخیں سامنے آنے کے حوالے سے جیو نیوز کو بتایا کہ وطن واپسی کا فیصلہ ن لیگ کے قائد نے خود کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی میں ’زیرو رسک‘ ہے اور امید ہے کہ فروری میں الیکشن کی صورت میں انہیں دو تین مہینے الیکشن مہم چلانے کا وقت ملے گا۔

انہوں نے قانونی کیسز کا سامنا کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف کو کوئی ضمانت نہیں دی گئی، وہ حفاظتی ضمانت لینے کے بعد عدالت مین پیش ہوں گے، ان کی اپیلوں پر سماعت ہو گی جس کے بعد وہ انشا اللہ بری ہو جائیں گے۔

پی پی پی کا 90 دنوں میں الیکشن پر زور

دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی نے زور دیا ہے کہ عام انتخابات 90 روز میں ہونا چاہیے۔

آج کراچی میں پی پی پی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد شیری رحمان کی سربراہی میں پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں الیکشن کی تاخیر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔

شیری رحمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر صورت 90 دن کے اندر انتخابات کروائے اور یہ کہ ’کیئرٹیکر حکومت چیئرٹیکر حکومت نہ بنے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو بے وجہ آئینی بحران میں نہ لے جایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی ماہرین کی ٹیم الیکشن کمیشن سے ملاقات کرے گی۔

سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیات نے ڈیجیٹل مردم شماری کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ’ہمیں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں کہا گیا تھا کہ مردم شماری کی منظوری سے الیکشنز میں تاخیر نہیں ہوگی۔

’ہمیں کہا گیا کہ نشستوں میں اضافہ نہیں ہو رہا، جس کی وجہ سے تاخیر نہیں ہو گی۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے۔‘

شیری رحمان نے کہا کہ نگران حکومت آئین یا قانون میں کوئی ردو بدل نہیں کرسکتی۔ ’نگراں حکومت کا اس قسم کا کوئی مینڈیٹ نہیں۔ الیکشن میں تاخیر کا جواز نئی حلقہ بندیوں کو بنایا جا رہا ہے۔‘

اس موقعے پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ’ہمیں صرف صوبوں کے نمبرز دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ مردم شماری کے باعث نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مراد علی شاہ کے بقول: ’آئین میں تین جگہ لکھا ہوا ہے کہ 90 دن کے اندر الیکشن ہونا ہے۔ 90 روز کے اندر الیکشن ہوسکتے ہیں نئی حلقہ بندیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے وفد کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات

پاکستان مسلم  لیگ ن کے ایک وفد نے جمعے کو چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان سے ملاقات کی۔

ن لیگ کے وفد میں احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، اعظم نذیر تارڑ، عطا اللہ تارڑ اور دوسرے رہنما شامل تھے، جنہوں نے الیکشن کمشن کے حکام کو بریفنگ دی کہ مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کے نتائج اور اس کی اشاعت کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے، جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر کرانے پر اتفاق کیا تھا۔

ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے کمیشن کے جاری کردہ حد بندی کے شیڈول کی حمایت کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان اور قانون کے مطابق قرار دیا۔

نون لیگ کے وفد نے یہ انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اور حد بندی ایک ساتھ شروع کرنے کی تجویز دی، تاکہ دونوں عوامل ایک ہی مرحلے میں مکمل ہوں اور انتخابات کے انعقاد میں کوئی تاخیر نہ پائے۔

وفد نے مزید سفارش کی کہ انتخابی ضابطہ اخلاق پر دوبارہ مشاورت کی جائے، جس کے تحت نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگائی جائے اور انتخابی مہم کے دوران صرف پوسٹرز اور اسٹیکرز لگانے کی اجازت دی جائے تاکہ امیدواروں کے اخراجات کم ہوں۔

مسلم لیگ ن نے تجویز دی کہ پارٹیوں کی جانب سے میڈیا مہم بھی چلائی جائے اور امیدواروں کو انفرادی مہم چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔

پارٹی نے الیکشن کمشن کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ذمہ داریاں اپنے ہی عہدیداروں اور ملازمین کو سونپنے کا مشورہ بھی دیا۔

پریس ریلیز کے مطابق: ’چیف الیکشن کمشنر نے وفد کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن نئی حد بندی اور انتخابی فہرستوں کا کام جلد از جلد مکمل کرے گا، جبکہ قانون کے مطابق ضابطہ اخلاق پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور اس کے بعد ضابطہ اخلاق کو حتمی شکل دی جائے گی۔

’الیکشن کمیشن نے نون لیگ کے وفد کو یقین دلایا کہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں گے اور تمام جماعتوں کو برابر کا میدان دستیاب ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے مانیٹرنگ ونگز کو مضبوط کر دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان