دریائے سندھ کے کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے خواتین اور کمسن بچوں سمیت تاوان کے لیے اغوا ہونے والے متعدد افراد کی بازیابی کے لیے سندھ اور پنجاب کے سرحد پر واقع علاقے کشمور میں انڈس ہائی وے پر چار روز سے احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے۔
دوسری جانب کشمور پولیس نے گذشتہ رات کارروائی کرتے ہوئے تین مغویوں کو بازیاب کرا لیا جن میں سات سالہ جئے دیو کمار، جگدیش کمار اور ڈاکٹر منیر نائچ شامل ہیں۔
سندھی زبان کے نجی ٹی وی چینل دھرتی ٹی وی کے کشمور کے رپورٹر اصغر چاچڑ کے مطابق ’واپڈا کے جینکو یونٹ گُڈو پر ملازمت کرنے والے گڈو کے رہائشی 50 سالہ ڈاکٹر منیر نائچ کو دو مہینے قبل ان کے نجی ہسپتال سے اغوا کیا گیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’ڈاکوؤں نے منیر نائچ کی بازیابی کے لیے ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔‘
مقامی لوگوں کے مطابق شمالی سندھ کے مختلف اضلاع سے ڈاکوؤں کی جانب سے تین درجن افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے۔
بیوپاری 25 سالہ ساگر کمار کو ایک ماہ قبل کشمور کے کھوسہ مارکیٹ میں واقع ایک ریستوران سے اغوا کیا گیا۔
جبکہ کشمور کے رہائشی 55 سالہ جگدیش کمار کو بڈانی شہر سے کشمور آتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا، ان کے ساتھ سات سالہ بچے جئے دیو کو بھی ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اس کے علاوہ ایک ماں نازیہ اور ان کی بیٹی کوثر کو بھی اغوا کیا جا چکا ہے۔
اغوا کی ان وارداتوں کے خلاف کشمور میں چار روز سے جاری احتجاجی دھرنے میں شہریوں، بیوپاریوں کے ساتھ سماجی رہنما، قوم پرست اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔
گذشتہ رات سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کشمور امجد شیخ نے احتجاجی دھرنے میں شریک رہنماؤں سے مذاکرات کر کے مغویوں کی بازیابی کے لیے 24 گھنٹے کا وقت مانگتے ہوئے درخواست کی کہ دھرنا ختم کیا جائے۔
مگر احتجاج کرنے والوں نے تمام مغویوں کی بازیابی تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کشمور امجد شیخ نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے گذشتہ رات دریائے سندھ کے دُرانی مہر کچےکے علاقے میں آپریشن کیا تو ڈاکو تینوں مغویوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔‘
ادھر کشمور احتجاجی دھرنے کے شرکا کے مطالبوں کی حمایت میں سندھ کے متعدد شہروں میں شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے قومی شاہراہ سمیت مختلف سڑکوں کو بند کر دیا۔
اسی معاملے پر حیدرآباد کے قاسم آباد ٹاؤن میں نسیم نگر سے ریلی نکال کر بائے پاس پر قومی شاہراہ کو بند کر دیا گیا۔
جبکہ سندھ کے دیگر شہروں میرپورخاص، بدین، گمبٹ، دادو، کنڈیارو، بڈانی، ٹنڈو الہیار سمیت کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا اور آج سکھر میں احتجاجی ریلی نکالی جا رہی ہے۔
سندھی زبان کے نجی ٹی وی چینل سندھ ٹی وی نیوز کشمور کے رپورٹر کرپال کیسوانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کشمور شہر میں گذشتہ چار روز سے مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔ شہریوں نے مغویوں کی بازیابی کے لیے تمام کاروبار مکمل طور پر بند کر رکھا ہے۔‘
کرپال کیسوانی کے مطابق : ’یہ احتجاجی دھرنا کشمور شہر کے ڈیرا موڑ کے مقام پر کوٹری سے پشاور جانے والی اہم شاہراہ انڈس ہائی وے یا نیشنل ہائی وے 55 پر دیا گیا۔ جس کے باعث ٹریفک مکمل طور پر بند ہے اور سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔‘
کرپال کیسوانی کے مطابق ’صرف کشمور، کندھ کوٹ ضلع سے 13 لوگ تاوان کے لیے اغوا ہوچکے ہیں۔‘
اس حوالے سے ہندو پنچائت کشمور کے رہنما ہریش مدن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حالیہ کچھ عرصے میں کشمور، کندھ کوٹ ضلع سے 33 لوگ اغوا ہوئے۔ جن ایک کمسن بچے سمیت چار ہندو بھی شامل تھے۔ ان میں بہت سے لوگ بازیاب ہو چکے ہیں۔ مگر تاحال ایک ہندو ساگر کمار سمیت آٹھ لوگ ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں۔‘
ہریش مدن کے مطابق : ’مقامی لوگ اغوا برائے تاوان سے بے حد پریشان ہیں۔ یہ احتجاجی دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اغوا ہونے والے تمام شہری واپس نہیں آجاتے۔‘
پولیس کا موقف جاننے لیے ایس ایس پی کشمور امجد شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
شمالی سندھ کے اضلاع جن کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے، وہاں گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکوؤں کے گروہ فعال ہیں۔
شمالی سندھ کے مختلف اضلاع میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کے فرائض انجام دینے والے پولیس افسر عرفان سموں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے پاس آر آر 75 جیسے جدید ہتھیاروں کے ساتھ مارٹر جسے ڈاکو اپنی زبان میں ’ہشٹڈو‘ کے نام سے پکارتے ہیں اور 12 اعشاریہ سات اور 12 اعشاریہ 14 بور کی بندوقیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں سندھ پولیس نے کچے میں گشت بڑھانے، پولیس چوکیاں قائم کرنے کے علاوہ متعدد بار آپریشن بھی کیے مگر ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔
رواں برس مارچ میں سندھ کی سابق صوبائی کابینہ نے دریائے سندھ کے علاقے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس، رینجرز اور فوج کے مشترکہ آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے جدید اسلحے کی خریداری کے لیے دو ارب 79 کروڑ، 60 لاکھ روپے جاری کیے تھے۔
ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ عبدالرشید چنا نے تصدیق کی ’ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن تاحال شروع نہیں ہو سکا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرشید چنا نے کہا کہ ’بڑے آپریشن کے لیے جب سندھ پولیس کو خطیر رقم جاری کی گئی اس کے کچھ عرصےبعد دریائے سندھ میں مون سون بارشوں کے باعث سیلابی صورت حال رہی اور کچے کا علاقہ زیر آب رہنے کے باعث آپریشن شروع نہ ہو سکا۔‘
ان کے مطابق ’دریائے سندھ کے کچے میں پانی کم ہونے کے بعد سندھ پولیس بھرپور آپریشن کر کے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کرے گی۔‘
کشمور دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالرشید چنا نے کہا کہ ’کشمور پولیس نے گذشتہ رات تین مغویوں کو بازیاب کرا لیا ہے اور باقی مغویوں کو بھی جلد بازیاب کرایا جائے گا۔‘