سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات فراہمی کا کیس، فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی عملے کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق کیس میں بدھ کو فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے دو ہفتوں میں فریقین سے تحریری دلائل طلب کر لیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (عامر قریشی/اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی عملے کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق کیس میں بدھ کو فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے دو ہفتوں میں فریقین سے تحریری دلائل طلب کر لیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو عدالتی عملے کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق شہری مختار احمد علی کی درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔

سماعت کے آغاز میں درخواست گزار مختار احمد علی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ جس پر مختار احمد نے جواب دیا کہ وہ ڈویلپمنٹ سیکٹر سے منسلک ہیں۔

چیف جسٹس نے ان سے کیس کی تفصیلات سے متعلق استفسار کیا، جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ انہوں نے ’گریڈ ایک سے 22 تک عدالتی عملے کی تفصیلات مانگی تھیں، جو فراہم نہیں کی گئیں۔ کُل ملازمین، ٹرانس جینڈر، خواتین، معذور اور مستقل و عارضی ملازمین کی تعداد بھی مانگی تھیں۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انہیں ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟

جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ ’معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔‘

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ صرف اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے: ’معلوم ہے کہ آپ قانونی طور پر بتانے کے پابند نہیں ہیں۔‘

درخواست گزار مختار احمد نے کہا کہ وہ ملکی اداروں میں شفافیت کے لیے کام کر رہے ہیں، اس لیے معلومات درکار ہیں۔ قانون اور آئین میں کسی آئینی ادارے کو معلومات تک رسائی سے استثنیٰ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’انفارمیشن کمیشن میں رجسٹرار آفس نے کیا جواب جمع کروایا تھا؟ کیا سپریم کورٹ کا معلومات تک رسائی کے قانون میں ذکر ہے؟‘

جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے جواب دیا: ’قانون میں ٹربیونلز اور دیگر عدالتوں کا ذکر ہے، سپریم کورٹ  کا نہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ’کیا کوئی ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے خلاف رِٹ جاری کر سکتی ہے؟‘

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’سپریم کورٹ کے خلاف رِٹ جاری نہیں ہو سکتی، سپریم کورٹ کسی ہائی کورٹ سے رجوع بھی نہیں کر سکتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا: ’ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تمام معلومات ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں، اگر کوئی ملازم یا افسر اپنی معلومات شیئر نہ کرنا چاہے تو کیا ہو گا؟ سپریم کورٹ میں دو خواجہ سرا بھی ملازم ہیں، وہ خود کو ظاہر نہ کرنا چاہیں تو کیا ہوگا؟‘

اس موقعے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف اتنی ہی معلومات دی جا سکتی ہیں کہ دو خواجہ سرا بھی ملازم ہیں، خواجہ سراؤں یا کسی افسر کی تفصیلات ذاتی نوعیت کی معلومات ہیں، وہ نہیں فراہم کی جا سکتیں۔

’سپریم کورٹ رولز کے تحت رجسٹرار کو اختیار نہیں کہ ازخود ہائی کورٹ سے رجوع کر سکے۔ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر ججز ہیں، رجسٹرار نہیں۔ انتظامی سطح پر فل کورٹ میٹنگ ہی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کر سکتی تھی۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا: ’کیا رجسٹرار آفس نے آپ کو معلومات دیں؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’رجسٹرار آفس نے کمیشن کو آرڈر واپس لینے کا کہا، رجسٹرار کا موقف تھا کہ انفارمیشن کمیشن سپریم کورٹ سے متعلق آرڈر نہیں دے سکتا۔ یہ معاملہ رِٹ میں ہائی کورٹ گیا اور سنگل بینچ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ خود درخواست گزار بن کر کسی عدالت جائے۔‘

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قوانین رجسٹرار کو سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست گزار بننے کا اختیار نہیں دیتے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کل کمیشن سپریم کورٹ ججز کی ذاتی فیملی معلومات پبلک کرنے کا کہہ دے تو کیا ہوگا؟ کیا پھر وہ آرڈر نظرانداز کر دیں گے یا چیلنج ہوگا؟‘ اس کے ساتھ ہی جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ’یہ بھی بتائیں کہ پھر وہ آرڈر فیملی چیلنج کرے گی یا سپریم کورٹ؟‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آئینی اور قانونی اعتبار سے یہ انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ اگر انفارمیشن کمیشن درخواست مسترد کر دیتا تو درخواست گزار کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا سپریم کورٹ انفارمیشن کمیشن کا حکم ماننے کی پابند ہے؟ سپریم کورٹ اگر کمیشن کے ماتحت ہے تو عدلیہ آزاد کیسے ہو گئی؟ آئین کے مطابق عدلیہ کسی کے ماتحت نہیں ہے۔‘

بعد ازاں عدالت نے افسران کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے درخواست گزار اور اٹارنی جنرل سے دو ہفتوں میں تحریری دلائل مانگ لیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’دو ہفتوں میں تحریری دلائل جمع کروائیں پھر فیصلہ کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان