سوشل میڈیا پر ’کارونجھر بچاؤ‘ ٹرینڈ کیوں چل رہا ہے؟

کارونجھر پر شجرکاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت کو تین مہینوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چلینج کر دیا جس کی پہلی شنوائی آج 13 دسمبر کو ہے۔

کارونجھر کا ایم منظر (انڈپینڈنٹ اردو/ امر گُرڑو)

گذشتہ دو روز سے سندھ کے صحرائے تھر میں واقع منفرد پہاڑی سلسلے کارونجھر کو بچانے کے لیے سوشل میڈیا پر’سیو کارونجھر‘ یعنی کارنجھر بچاؤ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

11 دسمبر کو دنیا بھر میں منائے جانے والے ’پہاڑوں کے عالمی دن‘ پر شروع ہونے والے ’سیو کارونجھر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ فیس بک پر اب تک 61 سے زائد پوسٹس کی گئی ہیں جن میں صارفین کارونجھر پہاڑ، وہاں بنے والی ندیوں، بارشوں کے بعد اگنے والی ہریالی، وہاں بسنے والے چرند پرند کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرکے مطالبہ کررہے ہیں کہ اس منفرد پہاڑی سلسلے کو بچایا جائے۔

سوشل میڈیا صارفین کا مطالبہ ہے کہ وہاں سے رنگ برنگے گرینائیٹ پتھروں کو بے دریغ نکالے جانے کا عمل فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔

23 جولائی کو سندھ کی نگران حکومت کی جانب سے کارونجھر پہاڑ سے گرینائیٹ پتھر نکالنے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے جن کے خلاف ضلع تھرپارکر کے شہر ڈیپلو کے رہائشی اور حیدرآباد میں وکالت کرنے والے وکیل ایڈووکیٹ شنکر لال نے سندھ ہائی کورٹ کی حیدرآباد میں ڈویژن بینچ کے سامنے پٹیشن دائر کی تھی۔

19 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد سرکٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کارونجھر پہاڑیوں کی کٹائی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت مکمل کرنے کے بعد 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے سندھ حکومت کے کارونجھر پہاڑی پر گرینائیٹ نکالنے کے آکشن کو فوری طور پر رد کرنے کے ساتھ کارونجھر کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

عدالت نے کارونجھر پہاڑی سلسلے کو عالمی گائیڈ لائن کے تحت محفوظ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے تحت یہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جس کی کٹائی کے لیے اس کو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ کارونجھر پر شجرکاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت کو تین مہینوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چلینج کر دیا جس کی پہلی شنوائی آج 13 دسمبر کو ہے۔

اس شنوائی سے قبل سوشل میڈیا صارفین ’سیو کارونجھر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کارونجھر کو تحفظ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر احتجاج  

دھنیش کمار نامی صارف نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا: ’پہاڑوں کے عالمی کے دو دن بعد کارونجھر کو کاٹنے کے خلاف پٹیشن کی شنوائی ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ہو رہی ہے۔ آئیں ہم وچن کریں کہ ہم اپنے پہاڑ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘

الهرکيو کوسو نے لکھا: ’کارونجھر 75 ہزار سے زائد انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو پالتا ہے۔ کارونجھر متعدد نیاب ترین جانوروں کی آخری پناہ گاہ اور ہمارہ قومی ورثہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے ساتھ عدل کرے گی۔‘

سانل کھوسو نے کارونجھر پر اپنی تصویر کے ساتھ پوسٹ لکھی: ’تہذیب یافتہ ممالک اپنے جانوروں کو پہاڑوں کو انسانوں کی طرح زندگی بخشتے ہیں۔ اس متعلق قوانین بھی بناتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کارونجھر جیسے پہاڑوں کو کاٹنی کی بولی لگائی جاتی ہے اور نہ انسانوں کا قدر ہے۔‘

کارونجھر پہاڑی سلسلہ تھرپارکر ضلع کے پارکر والے حصے میں موجود ہے۔ انڈین سرحد سے متعصل اس منفرد پہاڑی سے لگنے والی  انڈین سرحد کے اس پار انڈین سٹیٹ گجرات کا رن آف کچھ واقع ہے۔

انڈین گجرات، راجستھان اور وادی مہران کی قدیم انسانی تہذیبوں کا سنگم کارونجھر 23 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے جہاں سندھ کے دیگر خطوں کی نسبت جنگلی حیات کی کئی اقسام، جڑی بوٹیوں اور پودوں کی اقسام کے لحاظ سے مالامال ہے اور ممکنہ طور پر اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔

کارونجھر اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں پہاڑ، رن کچھ اور ریت والے تھر کا سنگم ہوتا ہے۔

کارونجھر پہاڑ سے 1979 سے گرینائیٹ نکالا جا رہا ہے مگر 2006 میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت میں تھر اور خاص طور پر نگرپاکر تک روڈ کی تعمیر کے بعد گرینائیٹ نکلانے میں تیزی آئی ہے۔

گذشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا بڑے پیمانے پر استعمال کے بعد مقامی لوگوں نے سوشل میڈیا پر گرینائیٹ نکالنے پر سوالات کرنا شروع کیے ہیں۔

کارونجھر سے گرینائیٹ نکالنے پر گذشتہ چند سالوں میں کئی تھر کے لوگوں نے احتجاج کیا۔ کچھ عرصہ قبل اس احتجاج کے دوران تھر کے شاعر خلیل کنبھر کی لکھی ہوئی نظم ’ڈونگر نے نی واڈھو، ویچو (پہاڑ کو نہ کاٹو، بیچو)‘ جسے تھر کے گلوکار رجب فقیر نے گایا، سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شاعر خلیل کنبھر نے کہا: ’کارونجھر کی خوبصورتی، اس میں ملنے والی جڑی بوٹیوں اورچرند و پرند اور انسانوں کو پالنے والی خصوصیحات کے ساتھ پارکر میں زیرزمیں میٹھے پانی کی موجودگی کارونجھر کے باعث ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سندھ ایریگیشن ڈولپمنٹ اتھارٹی (سازدا) کی ایک تحقیق کے مطابق زیر زمیں پانی کی تین تہوں میں سے پہلی تہہ کو یہ پہاڑی سلسلہ ری چارج کرتا ہے۔ جس کی مثال یہ ہے کہ پارکر میں چھوٹے بڑے قصبے اس جگہ واقع ہے جہاں یہ پہاڑ ہے، کیوں کہ وہاں زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ اس کے علاوہ پارکر کے لوگوں کے ذریعہ معاش مویشیوں کے لیے کارونجھر پہاڑی ایک چراگاہ کے کام دیتا ہے۔

’اگر اس پہاڑ کو کاٹا گیا تو اس اس علاقے سے زیر زمین میٹھا پانی ختم ہوجائے گا اور اس علاقے سے انسانوں کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔‘

خلیل کنبھر نے ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کارونجھر پہاڑ اس خطے کے موسموں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق مشرق سے آنے والے بادلوں کو یہ پہاڑی سلسلہ شمال کی جانب موڑ دیتا ہے، جس کے باعث صھرائے تھر، اچھڑو تھر اور حتہ کہ صحرائے چولستان تک مون سون کی بارشیں ممکن ہوتی ہیں۔ ’اگر کارونجھر کو کاٹ دیا گیا تو یہ تمام صحرا بارش سے محروم ہوکر برباد ہوجائیں گے۔‘

تھر کے شاعر ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف بھارو مل امرانی نے اپنی کتاب ’متھان لک لطیف چئی‘ میں کارونجھر کی تاریخی اہمیت کا تفصیلی جازہ لیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بھارو مل امرانی نے کہا کہ ہمالیہ کے کیلاش پربت پر واقع شِو رینج، اتھوپیا کی حیدر تہذیب، موئن جو دڑو کی سندھو تہذیب، مہر گڑھ کی طرح ان چند مقامات میں ایک ہے جہاں اوائلی انسانی تہذیبوں نے جنم لیا اور کارونجھر پاری نگر تہذیب کا مرکز رہا ہے۔

بھارو مل امرانی کے مطابق: ’کارونجھر پہاڑ میں متعدد قدیم غاریں موجود ہیں جن میں اندھارو اوجاڑو غار، پپریو، گودڑو ندی، بھٹیانی ندی اور گئو مکھی کے مقامات پر ملنے والے غاروں میں اوائلی انسانوں کے دور کی بنی انسانی شکلیں، انسانی ہاتھوں اور پیروں اورجانوروں کے عکس اس بات کی گواہی دیتی دیتی ہیں کہ قدیم دور میں یہاں انسان قیام پذیر تھے۔

’اس کے علاوہ پارکار کے گاؤں پاردڑو کے قریب پتھر کے دور کے آثارات اور اس دور میں استعمال ہونے والے اوزار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ اس لیے کارونجھر کو کاٹنے کے بجائے محفوظ بنایا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات