بیورو کریسی سے ریٹرننگ افسران کے تقرر کا پراسرار سفر

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں بیورو کریسی سے ریٹرننگ افسران کے تقرر کا پراسرار سفر 1951 سے 1970 تک جاری رہا، جس کے بعد عدلیہ سے افسران کی خدمات حاصل کرنے کی آئینی روایت شروع ہوئی۔

17 جولائی، 2022 کی اس تصویر میں پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں کے ضمنی انتخاب سے قبل انتخابی افسران لاہور کے ایک مرکز میں ووٹنگ کا سامان لے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے عام انتخابات بیورو کریسی سے کروانے کے الیکشن کمیشن کے 11 دسمبر کے نوٹیفیکیشن پر حکم امتناع کو معطل کر دیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے کل رات گئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر فروری میں عام انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے الیکشن ایکٹ 50 اور 51 کے تحت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران کا تقرر کیا تھا۔

بیورو کریسی کے افسران کی مکمل چھان بین کے بعد اور ان کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے ذاتی طور پر بیورو کریٹس کو تعینات کیا۔

اس عمل کے تحت قومی اسمبلی کے لیے 274 اور 593 صوبائی اسمبلیوں کے لیے ریٹرننگ افسران کے علاوہ 144 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کا تقرر کر کے ان کی تربیت کا مرحلہ شروع ہوا تھا۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کی وجہ سے انتخابی عمل عارضی طور پر تعطل کا شکار ہو گیا، لیکن سپریم کورٹ کے بروقت فیصلے نے الیکشن کی راہ میں ممکنہ رکاوٹ ختم کر دی۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں بیورو کریسی سے ریٹرننگ افسران کے تقرر کا پراسرار سفر 1951 سے 1970 تک جاری رہا۔

اس دوران 1965 کے آئین کے تحت الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکا اور آٹھ اکتوبر، 1958 کے مارشل لا کے دوران ریفرنڈم اور بنیادی جمہوریت کے ارکان کے تحت 1962 میں صدارتی الیکشن اور مشرقی، مغربی پاکستان کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے رہے اور انتخابات براہ راست بیورو کریسی کی نگرانی میں کروائے گئے۔

اسی طرح فاطمہ جناح کے الیکشن بھی بیورو کریسی کے زیر سایہ کروائے گئے، جس کے تحت جنوری 1965 کو صدر ایوب خان کو کامیاب کروایا گیا اور چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر بھی اعلیٰ بیورو کریٹ ہی رہے۔

الیکشن کمیشن کی 1956 کے آئین کے تحت تشکیل دی گئی تو وزارت خارجہ کے سینیئر بیورو کریٹ کو، جو برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے، چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تاکہ وہ مارچ 1959 کے انتخابات کروا سکیں۔

بریگیڈیئر ایف آر خان 1959 تک چیف الیکشن کمشنر رہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔

بعد ازاں جی معین الدین کو، جو انڈین سروسز کے انتہائی سینیئر بیورو کریٹ تھے، چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری سونپی گئی۔

انہوں نے دو جنوری، 1965 کو صدارتی انتخابات کروائے جو متنازع قرار دیے گئے اور محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کو عوام نے تسلیم نہیں کیا۔ اس میں بھی بیورو کریسی کا بڑا عمل دخل تھا۔

مغربی پاکستان کی بیورو کریسی صدر ایوب خان کے اشارے پر ان کی دُم چھلا بنی ہوئی تھی جب کہ مشرقی پاکستان کی بیوروکریسی نے ریاستی مفاد کو مدنظر رکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جی معین الدین نے ہی بنیادی جمہوریت کے سسٹم کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔

1966 کے اوائل میں جی معین الدین کی ریٹائرمنٹ کے بعد امتیاز اے فاروقی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا، جن کا تعلق بھی انڈین سول سروس سے تھا۔

25 مارچ، 1969 کو دوسرے مارشل لا کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے جب جولائی 1969 میں ملک میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو ممتاز سیاست دان ممتاز محمد خان دولتانہ اور خان ولی خان کی سفارشات پر ملک میں پہلی بار سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جناب جسٹس اے ستار کو پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔

یہاں سے یہ آئینی روایات شروع ہو گئیں کہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر سپریم کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو ہی چیف الیکشن کمشنر لگایا جائے گا۔

آئین کی 22 ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر بیورو کریسی سے مستعار لیے جانے کا بھی فیصلہ ہوا جس کے تحت مارچ 2019 میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سردار محمد رضا کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی بیورو کریسی کے انتہائی ایمان دار، ذہین اور غیرجانب دار سکندر سلطانہ راجہ کو پارلیمانی کمیٹی کی وساطت سے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان مقرر کیا گیا۔

اسی پس منظر میں ریٹرننگ افسران کی نگرانی میں انتخابات فروری 1985 تک ہوتے رہے جب کہ 1988 کے قومی انتخابات، جو 24 اکتوبر، 1988 کو ہونے تھے، کے موقعے پر 17 اگست، 1988 کو جنرل ضیاالحق کا سانحہ پیش آ گیا اور قائم مقام صدر مملکت غلام اسحاق نے بے نظیر بھٹو کی استدعا پر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 میں ہنگامی طور پر ترمیم کر کے آرڈیننس کے ذریعے ریٹرننگ افسران عدلیہ سے مستعار لینے کے احکامات جاری کیے، جب کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت نے عام انتخابات کرانے کے لیے بیورو کریسی سے حسب ِ معمول ریٹرننگ افسران کا تقرر کر دیا تھا۔

آرڈیننس کے اجرا کے فوراً بعد راتوں رات عدلیہ کے افسران کو ریٹرننگ افسران مقرر کیا گیا اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 میں بھی عدلیہ سے ریٹرننگ افسران مستعار لینے کی گنجائش موجود ہے۔

الیکشن کمیشن گذشتہ تین ماہ سے جوڈیشل افسران کی خدمات لینے کی استدعا ہائی کورٹ سے کرتا رہا جو ناگزیر وجوہات کی بنا پر منظور نہیں کی گئی اور لامحالہ الیکشن کمیشن نے 11 دسمبر کو ایک ہزار کے لگ بھگ ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کا تقرر کر دیا تھا۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ