2024: دنیا کے تقریباً 70 ممالک میں انتخابات کا سال

آنے والے سال 2024 میں غزہ اور یوکرین میں تباہ کن لڑائیاں، 70 ملکوں میں ہونے والے انتخابات اور مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی دنیا میں بڑی اور اہم تبدیلیوں کا سبب ثابت ہوں گی۔

واشنگٹن میں 22 جون 2022 کو وائٹ ہاؤس میں روسی صدر کی آویزاں تصویر کے سامنے امریکی صدر جو بائیڈن (ڈریو اینگرر / اے ایف پی)

سال 2024 میں غزہ اور یوکرین میں تباہ کن لڑائیاں، 70 ملکوں میں ہونے والے انتخابات اور مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی دنیا میں بڑی اور اہم تبدیلیوں کا سبب ثابت ہوں گی۔

یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کے کچھ حصوں کے جائزے کے لیے مصنوعی ذہانت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

نئے سال کے موقعے پر کرائمیا کے پانیوں میں روسی فوجی جہاز پر یوکرین کا میزائل حملہ، روس کے ڈرون اور گولہ بارود کی کھیپ میں دھماکہ جب کہ کیئف اور یوکرین کے دیگر شہروں پر ڈیڑھ سو سے زیادہ ڈرون اور میزائل حملوں کے ساتھ روس کی جوابی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ختم نہیں ہو گی۔

یوکرین کے مشرقی علاقوں پر روس کے فوجی حملے کے تقریبا دو سال بعد، اس ملک میں جنگ، کسی بھی فریق کے لیے واضح برتری کے بغیر، عملی طور پر 1980 کی دہائی میں آٹھ سالہ ایران-عراق جنگ کے آخری چھ سالوں کی طرح کی صورت حال میں داخل ہوگئی ہے۔ جب تک پوتن اقتدار میں ہیں، روس کے یوکرین میں اپنے مقبوضہ عہدوں سے دستبرداری کے امکانات بہت محدود ہیں۔

مشرقی یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے تقریباً دو سال بعد اس ملک میں ہونے والی جنگ میں کسی بھی فریق کی نمایاں برتری کا واضح امکان نہیں ہے۔ یہ جنگ 1980 کی دہائی میں آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے آخری چھ سال میں سامنے آنے والی صورت حال میں داخل ہو چکی ہے۔ جب تک روس کے صدر ولادی میر پوتن اقتدار میں ہیں، روس کے مقبوضہ یوکرینی ٹھکانوں سے پیچھے ہٹنے کا امکان بہت کم ہے۔

بین الاقوامی دباؤ بالخصوص اقوام متحدہ، مغربی لبرل جمہوریتوں اور متوازی ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، این بی سی اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی حکومت اور ان کی فوج غزہ میں حماس کی فوجی صلاحیت اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کرنے سمیت فلسطینی علاقوں میں لڑائی جاری رکھنے کے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹی۔

اگرچہ نتن یاہو سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل میں عوامی حمایت کھو چکے ہیں لیکن حماس لڑائی ختم ہونے تک اقتدار میں رہے گی۔ اس وقت جو بات واضح نہیں ہے وہ لڑائی کا خاتمہ ہے۔

نتن یاہو کی حکومت غزہ میں ہونے والی تباہی کا اعتراف کرنے سے گریز رہی ہے اور نہ ہی یہ بتا رہی ہے کہ لڑائی ختم ہونے کے بعد علاقے کے باقی ماندہ 20 لاکھ مکینوں کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے گا۔ ان کی حکومت لڑائی کے موجودہ دائرے میں فوجی صورت حال مستحکم ہونے کے بعد لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔

اس بار جنوبی لبنان پر فوجی حملے کے اخراجات جولائی 2006 میں ہونے والی 33 روزہ جنگ (تیموز جنگ) سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر حزب اللہ کو نظرانداز کرنا بھی سات اکتوبر کی کارروائی کے مقابلے میں کئی گنا تباہ کن خطرہ ہے۔

متعدد سرخ لکیریں کھینچنے کے باوجود ایرانی حکومت نے اب تک اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے لیکن اس بار اسرائیل ایران کو نشانہ بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ درست موقعے کی تلاش میں ہے۔ لبنان میں جنگ میں توسیع اور حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کو نشانہ بنانا تہران کے ساتھ بڑے فوجی تصادم کے پیش خیمے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

موجودہ امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کی سٹریٹیجک شراکت داری کا مقصد غزہ میں لڑائی کا دائرہ محدود کرنا ہے جب کہ نتن یاہو کی حکومت اس دائرے میں توسیع اور امریکہ کو ایک بڑی لڑائی میں گھسیٹنے پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد اسرائیل کو دیرپا سلامتی فراہم کرنا ہے۔

ماضی کے اختلافات کے باوجود نتن یاہو کی حکومت کو ڈیموکریٹک بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کام کرنا زیادہ آسان لگتا ہے اور امریکہ میں نومبر میں ہونے والا صدارتی الیکشن جو شاید دنیا کا سب سے زیادہ اہم انتخاب ہے، اس کا مشرق وسطیٰ کے معاملات پر خاص طور پر اثر پڑے گا۔

امریکہ میں رائے عامہ کی قیاس آرائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آ جائیں گے۔ اگرچہ 11 ماہ تاریخی اعتبار سے مختصر وقت ہے لیکن سیاست میں بہت طویل وقت ہے۔

81 سالہ بائیڈن جن کی امریکی رائے دہندگان کی نظر میں سب سے بڑی کمزوری ان کا بڑھاپا، جسمانی معذوری اور رویے کے مسائل ہیں، ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہونے کے باوجود، انہوں نے روز کے معاملے میں گذشتہ چار دہائیوں میں کسی بھی ڈیموکریٹک صدر کے مقابلے میں لوگوں کو سب سے کم مطمئن کیا ہے۔

افراط زر اور ایندھن کے اخراجات کی اور یوکرین کی امداد پر اٹھنے والے بھاری اخراجات ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی بنا پر ان کے ووٹروں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں سیاہ فام شہریوں اور لاطینی نژاد شہریوں کی سوچ بھی بدلی ہے۔

اگر ٹرمپ اپنی پہلی مدت سے حاصل ہونے والے تجربے اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں وائٹ ہاؤس تک پہنچنے سے روکنے کے لیے بنائی گئی قانونی رکاوٹوں کو توڑ دیتے ہیں تو ٹرمپ غزہ اور یوکرین میں دونوں جگہ لڑائی ختم کروانے میں بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے اس سے قبل ابراہام امن معاہدے اور اپنے داماد جیرڈ کشنر کے سفارتی کردار کی بدولت اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں مدد کی۔ ان کی دوسری مدت میں اس معاہدے پر عمل سے اسرائیل کی قومی سلامتی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 

روس میں صدارتی انتخاب 15 سے 17 مارچ 2024 کو ہونے والے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ بڑھتے عوامی غصے کے باوجود پوتن فیصلہ کن طور پر فاتح ہوں گے۔

پوتن کے ساتھ ٹرمپ کے دوستانہ تعلقات اور ان کی کاروباری سفارت کاری کرائمیا اور مشرقی یوکرین میں علاقائی مراعات کی پیش کش کو برقرار رکھنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے تاکہ روسی صدر کو جنگ ختم کرنے پر راضی کیا جا سکے۔

یوکرین میں ملتوی ہونے والا صدارتی انتخاب 2024 میں ہو سکتا ہے اور زیلنسکی جانتے ہیں کہ اگر دوبارہ منتخب ہو بھی جاتے ہیں تو وہ امریکی حمایت کے بغیر روس کے ساتھ جنگ جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ ٹرمپ کے پاس یوکرین کی فوجی اور مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر جنگ ختم کروانے کے لیے زیادہ موقع ہو گا۔

دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک انڈیا میں عام انتخابات اپریل اور مئی 2024 میں ہونے والے ہیں اور ملک کے دائیں بازو کے وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کے 28 اپوزیشن گروپوں کے اتحاد جس میں کانگریس بھی شامل ہے، کے باوجود قومی اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں رہنے کی توقع ہے۔

انڈیا کی پارلیمان میں 543 نشستیں ہیں۔ 226 نشستیں لے کر حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ مودی کی حکومت کے پاس اس وقت 290 نشستیں ہیں اور اگر وہ ہندو ووٹوں والے تین صوبوں میں دوبارہ کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس اکثریت میں اضافہ ممکن ہے۔

جنوبی افریقہ ایک اور بااثر ملک ہے جہاں اگلے سال قومی اسمبلی کی چار سو نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ملک میں سفید فام حکومت کے خاتمے کے بعد ساتویں عام انتخابات کے انعقاد سے جمہوریت مستحکم ہو گی اور براعظم میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری آئی گی۔

بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں جنوری اور فروری 2024 میں عام انتخابات متوقع ہیں۔

بنگلہ دیش میں 75 سالہ شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی سب سے بڑی بیٹی پارلیمنٹ میں 74 فیصد ووٹوں کے ساتھ اقتدار پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ انہوں نے غیر جانبدار عبوری حکومت کے تحت انتخابات کروانے کے اقلیتی نیشنل پارٹی کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

انڈونیشیا میں 14 فروری کو انتخابات ہونے والے ہیں اور ملک کے مطلق العنان صدر سہارتو کے 32 سال بعد نوخیز جمہوریت کو فوج، تجربہ کار سیاست دانوں اور روائتی طور پر دولت اور طاقت رکھنے والے افراد کے اثر و رسوخ کا حکومت میں کردار ختم کرنے کا موقع ملے گا۔

تائیوان میں 13 جنوری کو صدارتی انتخاب ہو گا اور موجودہ صدر سائی انگ وین جو 2016 سے اب تک دو مرتبہ انتخاب میں حصہ لے چکی ہیں، الیکشن نہیں لڑیں گی حالاں ان کی جمہوریت پسند جماعت پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھنے کے لیے پرامید ہے۔

چین تائیوان کے صدارتی انتخاب پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اگر ممکن ہوا تو نتائج پر اثر انداز ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ایک بار پھر انتخابات 2024 میں ہوں گے لیکن ایران میں مجلس شوریٰ کے انتخابات کا بارہواں دور ہونے جا رہا ہے جس پر بحث اور غور کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر 84 سالہ علی خامنہ ای ایسی حالت میں ہیں کہ ان کی غیر موجودگی کسی بھی وقت متوقع ہے اور نتائج کی پیشگوئی کے باوجود اس غیر موجودگی کے نتیجے میں اعلیٰ سطح پر قیادت کا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس سے حکومت کے اندر استحکام برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

 290 نشستوں پر مشتمل ایرانی پارلیمنٹ کے انتخابات یکم مارچ 2024 کو ہوں گے اور توقع کی جا رہی ہے کہ قدامت پسند اپنی موجودہ اکثریت برقرار رکھیں گے، ان کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ وہ  توازن کے لیے کئی نشستیں اصلاح پسندوں کے لیے چھوڑ دیں گے تاکہ کوئی نشست خالی نہ رہے۔

حکومت کے نزدیک 2024 انتخابات اہمیت کے حامل ہیں کیوں وہ چاہتی ہے کہ لوگ زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالیں۔ حکومت کا ماننا ہے ذرائع ابلاغ کے لیے ویڈیو بنا کر اور مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابات کے بارے میں لوگوں کی سوچ کو زیادہ مثبت بنایا جا سکتا ہے خواہ وہ اس سے پہلے انتخابات کے معاملے میں پرجوش نہ رہے ہوں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر