بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے پانچویں بار وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار

بنگلہ دیشی میڈیا نے الیکشن کے ابتدائی نتائج کے حوالے سے بتایا کہ شیخ حسینہ کی حکمراں جماعت عوامی لیگ اور ان کے اتحادیوں نے کم از کم 85 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ سات جنوری، 2024 کو ڈھاکہ میں ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اتوار کو اپوزیشن کی جانب سے عام انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد پانچویں مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دے رہی ہیں۔

شیخ حسینہ ایک ایسے ملک میں معاشی ترقی کی قیادت کر رہی ہیں جو کبھی غربت کا شکار تھا لیکن ان کی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حزب اختلاف کے خلاف بے رحمانہ کریک ڈاؤن کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ان کی پارٹی عوامی لیگ کو اس الیکشن میں کسی سخت حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن اس نے کچھ حلقوں میں امیدوار کھڑے کرنے سے گریز کیا ہے جو بظاہر مقننہ کو ایک جماعتی ادارہ قرار دیے جانے سے بچنے کی ایک واضح کوشش ہے۔

حزب اختلاف کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے، جس کی صفوں کو بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے تباہ کر دیا گیا، آج عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا اور درجنوں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ’دکھاوے کے انتخابات‘ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔

تاہم 76 سالہ شیخ حسینہ نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ جمہوری عمل پر اعتماد کا اظہار کریں۔

انہوں نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو میں بی این پی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت برقرار رہے۔

بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق 300 نشستوں میں سے ایک تہائی سے زائد نشستوں کے نتائج کے اعلان کے بعد عوامی لیگ اور ان کے اتحادیوں نے کم از کم 85 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے نجی نشریاتی ادارے سوموئے ٹی وی کے مطابق جن 114 نشستوں کے نتائج سامنے آئے ہیں، ان میں سے حکمراں جماعت نے 93 اور اس کی حلیف قومی پارٹی نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ باقی 17 نشستیں آزاد یا دیگر اتحادی قانون سازوں نے حاصل کی ہیں۔

بہت سی نشستوں پر ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ جیتنے والوں میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کپتان شکیب الحسن بھی شامل ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر حبیب الاول نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ابتدائی اعداد و شمار کی بنیاد پر رائے دہندگی تقریباً 40 فیصد رہی۔

پہلی بار ووٹ ڈالنے والے 21 سالہ امیت بوس نے کہا کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیا تھا، لیکن دوسروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کی پروا نہیں کی کیونکہ نتائج یقینی تھے۔

رکشہ چلانے والے 31 سالہ محمد سیدور نے کہا، ’جب ایک پارٹی حصہ لے رہی ہو اور دوسری نہیں، تو میں ووٹ ڈالنے کیوں جاؤں؟‘

بی این پی کے سربراہ طارق رحمٰن نے برطانیہ سے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ووٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے 'جعلی ووٹ' استعمال کیے جائیں گے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’جو کچھ سامنے آیا وہ انتخابات نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی جمہوری امنگوں کی توہین ہے۔‘

بی این پی اور دیگر جماعتوں نے گذشتہ سال کئی ماہ تک احتجاج کرتے ہوئے الیکشن سے قبل حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چٹاگانگ میں حکام نے اتوار کو حزب اختلاف کے احتجاج کو ختم کرتے ہوئے شاٹ گنز اور آنسو گیس کے گولے داغے لیکن انتخابی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ووٹنگ بڑی حد تک پرامن رہی اور ملک بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ پولیس افسران اور فوجی تعینات ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی میناکشی گنگولی نے اتوار کو کہا کہ حکومت حزب اختلاف کے حامیوں کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہی کہ انتخابات منصفانہ ہوں گے۔

دنیا کے آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی سیاست پر طویل عرصے سے ملک کے بانی رہنما کی بیٹی شیخ حسینہ اور سابق فوجی حکمران کی اہلیہ خالدہ ضیا کے درمیان دشمنی چھائی ہوئی تھی۔

2009 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے شیخ حسینہ واجد فیصلہ کن فاتح رہی ہیں اور اس کے بعد ہونے والے دو انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

78  سالہ خالدہ ضیا کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی اور وہ اس وقت ڈھاکہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ ان کے بیٹے طارق رحمٰن لندن سے بی این پی کی سربراہی کر رہے ہیں۔


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا