پاکستان کی وفاقی کابینہ کو منگل کو فیڈرل بورڈ آف رینیو (ایف بی آر) میں اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے جو مختلف امور سمیت اس بات پر بھی غور کرے گی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں ٹیکس جمع کرنے کے دو الگ شعبے بنا دیے جائیں۔
منگل کو وفاقی کابینہ کو تجویز پیش کی گئی کہ ایف بی آر میں فیڈرل کسٹم بورڈ اور فیڈرل ان لینڈ ریونیو کے شعبے علیحدہ کر دیے جائیں۔
ایف بی آر بنیادی طور پر ان لینڈ ریونیو سروس اور کسٹم سروس کے شعبوں پر مشتمل ادارہ ہے۔ دونوں گروپ ٹیکس کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
وفاقی کابینہ کا منگل کو اجلاس نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا۔
وزیر اعظم دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق ’اجلاس میں نگران وفاقی کابینہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تشکیل نو اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز پر سیر حاصل بحث کی۔
وزیراعظم نے ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے پیش کی گئی ان تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ اراکین کی آرا کی روشنی میں نگران وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی۔
کمیٹی کے دیگر ممبران میں وفاقی وزیر برائے نجکاری، خارجہ امور، تجارت، توانائی، قانون و انصاف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہوں گے۔
کمیٹی ان تجاویز کے حوالے سے اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔
وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ممبران نے مشترکہ طور پر ان ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے ان تجاویز کی تائید کی اور اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ نگران حکومت ایف بی آر اصلاحات کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
ایف بی آر کی ازسرنو تشکیل کے لیے ایک ہزار قوانین میں ترمیم کرنا ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے گذشتہ ہفتے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے جانب سے ادارے کی تنظیم نو پر بریفنگ دی گئی تھی۔
کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے ایف بی آر کو ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز پر مبنی دو شعبوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بیان کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ادارے کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے ایک ہزار قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ دونوں اداروں کی نگرانی کے لیے اوورسائٹ بورڈ بھی قائم کیا جائے گا۔‘
ایف بی آر کی جگہ دو نئے ادارے بنائے جا رہے ہیں
معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اصلاحات میں ایف بی آر کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اور ایف بی آر کی جگہ دو نئے ادارے بنائے جا رہے ہیں، ایک ان لینڈ ریونیو بورڈ اور دوسرا فیڈرل کسٹم بورڈ بنایا جا رہا ہے۔ دونوں اداروں کی الگ الگ ذمہ داریاں اور الگ انتظامیہ ہو گی۔ایف بی آر کا پالیسی فنکشن وہ ریونیو ڈویژن کو دیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کا ٹیکس اکٹھا کرنے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ادارے کی تشکیل نو ہے جس کا زیادہ فائدہ کسٹم کو ہو گا، اس لیے ان لینڈ ریونیو گروپ کے ملازمین و افسران ان اصلاحات کے خلاف تھے۔‘
اصلاحات کا مقصد ٹیکس کا نظام مضبوط کرنا ہے
ماہر معاشی امور شکیل احمد نے بتایا کہ ’ماضی میں بھی ایف بی آر کے تشکیل نو اور اصلاحات کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن ایف بی آر کی بیورو کریسی کی جانب سے مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کا فیصلہ ایس آئی ایف سی کے فورم پر ہوا ہے۔ جس کے بعد مزاحمت ہوئی، ایف بی آر کراچی دفتر میں ملازمین کی جانب سے ہڑتال بھی کی گئی۔ ایس آئی ایف سی کے دباؤ پر ہی یہ سمری کابینہ میں منظوری کے لیے سیکریٹری ایف بی آر نے پیش کی ہے۔‘
ان اصلاحات کا مقصد کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ماہر معاشی امور شکیل احمد نے بتایا کہ اس کا مقصد ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنا ہے ٹیکس نظام میں خامیوں کو دور کرنا ہے۔
اصلاحات سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ
سابق ممبر ایف بی آر ڈاکٹر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ازسرنو تشکیل یا ڈیجیٹلائزیشن تو کہیں نظر نہیں آ رہی بلکہ ایف بی آر ختم ہو جائے گا دو بورڈ بن جائیں گے۔
’کسٹم علیحدہ ہو جائے گا نجی ٹیکسز کا معاملہ بھی علیحدہ ہو جائے گا اور ان کا کنٹرول بھی نجی لوگوں کے پاس چلا جائے گا۔ کسٹم کا حصہ الگ کرنا اور نجی ٹیکسز کو الگ کرنا، یہ کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔ اب کسٹم میں الگ ٹیکس ہو گا اور ڈومیسٹک مارکیٹ میں جب چیزیں آئیں گی تو نجی ٹیکسز لگیں گے۔‘
شکیل احمد سمجھتے ہیں کہ ’کسٹم اور ڈومیسٹک ٹیکس کو اکٹھا ہی رہنے کی ضرورت تھی۔ اس طرح ٹیکس ادا کرنے والوں کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے ٹیکس کولیکشن بھی متاثر ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بظاہر اس پر کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا اس لیے ادارے کے اندر سے اس معاملے پر مزاحمت تھی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔