برطانوی مسلمان عام طور پر سپر مارکیٹ کے لیبل چیک کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ خریدی گئی اشیا حلال ہیں تاہم اس رمضان میں وہ یہ بھی چیک کر رہے ہیں کہ ان کی کھجوریں کہاں اگائی جاتی ہیں۔
مسلمان عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس میٹھے پھل سے اپنا روزہ افطار کرتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اس سال غزہ کی جنگ کے پس منظر میں برطانوی مسلمان اسرائیلی کھجوریں خریدنے سے گریز کرنا چاہتا ہیں۔
فرینڈز آف الاقصیٰ (ایف او اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ مبینہ طور پر یورپ میں اسرائیلی کھجوروں کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور اس نے 2020 میں اس نے اسرائیل سے تین ہزار ٹن سے زائد کھجوریں درآمد کیں جن کی مالیت تقریبا 75 لاکھ پاؤنڈ (96 لاکھ ڈالر) بنتی ہے۔
14 سال سے زائد عرصے سے ایف او اے کا ادارہ#CheckTheLabel بائیکاٹ مہم چلا رہا ہے تاکہ ان صارفین میں شعور بیدار کیا جا سکے جو نادانستہ طور پر اسرائیلی کھجوریں خریدتے ہیں۔
اس مہم میں رمضان کے دوران مسلمانوں کی توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس مہینے میں یورپ کے اندر اسرائیلی کھجور کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اپنی مہم کے ایک حصے کے طور پر، وکالت کرنے والے گروپ نے مقامی مساجد کے اماموں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ مقدس مہینے کے دوران اپنے خطبات میں بائیکاٹ پر بات کریں۔
ایف او اے سے وابستہ شامی الجردر نے کہا کہ ’رمضان میں مساجد اتحاد کا پیغام پھیلانے اور لوگوں کو خریداری سے قبل اخلاقی تحفظات اور اقدار کو مد نظر رکھنے کی ترغیب دینے کے لیے بہت اہم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس مہم کو ہمیشہ بہت اچھی پذیرائی ملی ہے۔ کوئی بھی جان بوجھ کر اسرائیلی کھجوروں سے اپنا روزہ نہیں کھولنا چاہتا، ایسی مصنوعات سے جو چوری شدہ زمین پر غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔‘
اسرائیل کے غیر قانونی قبضے نے بہت سے فلسطینیوں کو بستیوں کے کھیتوں پر ہتک آمیز حالات میں کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی کھجور کی صنعت میں فلسطینی مزدوروں کے استحصال کو دستاویزی شکل دی ہے، جن میں 11 سال تک کی عمر کے بچوں کو نقصان دہ کیڑے مار ادویات کا سامنا کرتے ہیں اور خواتین سخت حالات میں طویل دورانیے تک مشقت کرتی ہیں۔
برطانیہ میں بائیکاٹ کی تحریک نے گذشتہ برسوں میں زور پکڑا ہے، خاص طور پر غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے تناظر میں، جس میں اکتوبر 2023 سے اب تک 30 ہزار سے زیادہ افراد جان سے گئے ہیں۔
لندن سے تعلق رکھنے والے عراقی ڈیزائنر عباس نے عرب نیوز کو برطانیہ میں اسرائیلی کھجوروں کے پھیلاؤ کے متعلق بتایا۔
اس 21 سالہ ڈیزائینر کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ عرب ممالک میں پیدا ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا نے انہیں لیبل چیک کرنے کی اہمیت سے آگاہی میں مدد کی ہے۔
دریں اثنا، الجردر نے متنبہ کیا کہ اسرائیلی برآمد کنندگان صارفین کو ’جان بوجھ کر گمراہ‘ کرنے کے لیے کھجوروں کے اصل ملک کو چھپا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
52 سالہ برطانوی مسلمان سوہا نے عرب نیوز کو بتایا: م’یں اپنی کھجوریں ایک ایسی کمپنی سے خریدتی ہوں جسے میں جانتی ہوں کہ وہ سعودی ہے۔ اس طرح میں غلطی سے بھی اسرائیلی برانڈز سے خریداری نہیں کرتی۔‘
اسی طرح، برطانیہ میں فلسطینی کھجور کے استعمال کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے، جو اسرائیلی کھجور کی صنعت کی ترقی سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پینی اپیل نامی اسلامی خیراتی ادارہ جیریکو (اریحا) سے حاصل کردہ کھجوریں فروخت کر رہا ہے، جس سے فلسطینی کسانوں کو ایک ذریعہ معاش کے حصوصل میں مدد ملتی ہے۔
پینی اپیل کے احمد بوستان نے عرب نیوز کو بتایا: ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان صارفین کھجور خریدنے میں زیادہ محتاط ہیں۔ ہمیں روزانہ کالز اور ای میلز موصول ہوتی ہیں جن میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ یہ ثابت کریں کہ آپ ہماری کھجوریں فلسطینی ہیں۔‘
فلسطینی کسانوں کی مدد کرنے والے برطانیہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم زیتون نے کہا کہ برطانیہ میں سستی میڈجول کھجوروں کے پھیلاؤ نے صارفین کو قیمتوں کا موازنہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
تنظیم نے عرب نیوز کو بتایا: ’زیر قبضہ کاشت کاری اور تجارت کے نتیجے میں لاگت بڑھ جاتی ہے، اور فلسطینی کاشتکار بڑے پیمانے پر کام نہیں کر سکتے جس سے عام طور پر پیداواری لاگت کم ہو جاتی ہے۔‘
اس کے باوجود زیتون نے اپنی فلسطینی مصنوعات کی ’حمایت میں زبردست اضافہ‘ دیکھا ہے، جو اب برطانیہ کے بڑے خوردہ فروشوں جیساکہ سیلفریز، فینوکس اور ہول فوڈز مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔
اس تنظیم نے کہا کہ ’کھجور کی براہ راست کاشت کے علاوہ، کھجور کا شعبہ متعلقہ صنعتوں جیسے چھانٹی، پروسیسنگ، پیکنگ، پرنٹنگ، پیکیجنگ، ریفریجریشن، ہالج، لاجسٹکس اور دیگر میں روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے۔
’کھجور کے شعبے کی ترقی میں حصہ ڈال کر، صارفین فلسطین کی وسیع تر اقتصادی ترقی میں فعال طور پر حصہ ڈالتے ہیں، اور مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے درکار استعداد پیدا کرتے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔