افغانستان میں ایک اور حملہ، نقصان کس کا ہو رہا ہے؟

موجودہ نئی صف بندیوں سے ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ جذباتیت سے نقصان کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ جس نے زیادہ غصہ اور جنونیت کا مظاہرہ کیا وہ خسارے میں رہے گا۔

مسلمان ممالک کی تباہی و بربادی کا براہ راست فائدہ کسے ہو رہا ہے اور نقصان کس کا ہے؟ بس بات صرف اتنی سی ہے۔(اے ایف پی)

افغانستان کے حالات ایک بار پھر کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست ایک سال سے جاری مذاکرات سے افغان عوام کی جو امیدیں وابستہ تھیں وہ ٹوٹ گئیں۔

تازہ حالات یہ ہیں کہ صدر اشرف غنی کی انتخابی مہم کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا گیا۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات 28 ستمبر کو ہونے ہیں۔ انتخابات سے محض چند روز پہلے افغان صوبہ پروان میں انتخابی جلسے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دھماکے سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے افغانستان کے موجودہ صدر اور اگلی مدت کے لیے بھی صدارت کے امیدوار اشرف غنی محفوظ رہے۔

اس دھماکے نے صدارتی انتخاب پر بھی دہشت کی سیاہ چادر پھیلا دی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کی نئی لہر گذشتہ ماہ اگست کی 30 اور 31 تاریخ کو اُس وقت آئی جب طالبان نے شمالی شہر قندوز پر حملہ کیا اور کئی سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس حملے میں متعدد افغان سکیورٹی اہل کار بھی مارے گئے۔ حملے کے بعد سے طالبان نے دیگر صوبوں میں بھی اپنی کارروائیاں بڑھائیں۔ 2015 میں بھی طالبان نے قندوز پر قبضے کی کوشش کی تھی لیکن اتحادی فوج نے آپریشن کرکے اسے ناکام بنا دیا۔ یاد رہے کہ قندوز کے ارد گرد کے علاقوں میں طالبان کا اثر و رسوخ پہلے سے پایا جاتا ہے۔

افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کا مرکز قطر کا دارالحکومت دوحہ رہا۔ نو ادوار ہوئے۔ آخری دور یکم ستمبر تک کامیاب رہا۔ طالبان اور امریکہ کی جانب سے مثبت باتیں سامنے آئیں کہ دونوں نے امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے۔ تاہم افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والے مذاکرات سے افغان حکومت کو بالکل علیحدہ رکھا گیا۔ طالبان نے اشرف غنی حکومت سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کٹھ پتلی حکومت ہے۔ طالبان مستقبل میں بھی اشرف غنی کو کوئی کردار دینے کے حامی نہیں ہیں۔

طالبان کا کہنا تھا کہ امریکہ جلد از جلد معاہدے کا اعلان کرے۔ معاہدہ کے اعلان کے لیے امریکی ریاست میری لینڈ کے تاریخی مقام کیمپ ڈیویڈ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں فلسطین سمیت کئی ممالک کی تقدیر کے اہم فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور فیصلہ ہونے جا رہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات ستمبر کو ایک ٹویٹ کے ذریعے سب کچھ ختم کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا جواز کابل دھماکے کو بنایا جس میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہوا۔ افغانستان اور خطے کی صورت حال پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صرف کابل دھماکا مذاکرات منسوخ کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتا۔ بات کچھ اور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور خطے سے متعلق کچھ اور سوچ رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لے کر آج تک اگر ان کے بیانات اٹھا کر دیکھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ٹرمپ یوٹرن لینے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگاتے۔

افغانستان میں ایک بار پھر سے انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ اچانک نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے پوری منصوبہ بندی ہے۔ افغانستان میں امن عمل جب مکمل ہوچکا تو پھر دولتِ اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم نے سر اٹھا دیا۔ یہ وہی دولت اسلامیہ ہے جس کو لے کر افغانستان کے ساتھ جڑی سرحدیں روس، چین، ایران اور پاکستان سب کو خدشات ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق شام میں بدترین شکست کے بعد داعش کا وجود جنوبی ایشیا میں خاص حکمت عملی کے تحت لایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں ان پُرتشدد کارروائیوں کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ وہ بھی اپنی اہمیت جتانے کے لیے سر اٹھا رہی ہے۔ عراق اور شام میں جس طرح اس نے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کیا، اسی نوعیت کے واقعات افغانستان میں بھی ہو رہے ہیں۔

پھر اسی دوران سعودی عرب کی ریفائنری پر ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کسی پر الزام نہیں لگاتا لیکن امریکہ کی طرف سے ایران پر براہ راست الزام لگا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ امریکہ سے بات چیت معطل ہونے کے بعد طالبان کا روس جانا اور پھر ایران پہنچ جانا۔ یہی نہیں طالبان چین بھی جا رہے ہیں اور خطے کے دیگر ممالک کا دورہ بھی کریں گے۔

ترکی کے شہر انقرہ میں بھی ایران اور روس کی قیادت خطے کی صورت حال پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔ پاور گیم تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ نئی صف بندیوں سے ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ جذباتیت سے نقصان کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ جس نے زیادہ غصہ اور جنونیت کا مظاہرہ کیا وہ خسارے میں رہے گا۔ رہی سہی ساکھ، عزت اور سلطنت سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ جس ملک نے اس گرد آلود جنگی موسم میں بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا مستقبل اسی کا ہے۔ عراق، شام، یمن، فلسطین، کشمیر، افغانستان کے بعد اب ایران اور سعودی عرب کا نمبر لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

مسلمان ممالک کی تباہی و بربادی کا براہ راست فائدہ کسے ہو رہا ہے اور نقصان کس کا ہے؟ بس بات صرف اتنی سی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ