دنیا بھر کے کئی ممالک کی طرح گاڑیوں کو پیٹرول سے الیکٹرک میں بدلنے کا رجحان پاکستان بھی پہنچ چکا ہے اور کئی کمپنیاں پاکستان میں اپنی الیکٹرگ گاڑیاں متعارف کروانے کا اعلان کر چکی ہیں۔
اسی رجحان کے مطابق لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ کے رہائشی فیصل گجر اپنے بل بوتے پر گاڑیوں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
فیصل گجر 1600 سی سی تک گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو پیٹرول کے ساتھ الیکٹرک سسٹم پر منتقل کرنے کا کام کامیابی سے کرتے ہیں۔
بی ایس سی کے بعد ایل ایل بی پاس کرنے والے فیصل کے مطابق: ’جیسے جیسے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، شہریوں میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل الیکٹرک نظام پر منتقل کرانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔‘
فیصل پیٹرول گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو مہارت کے ساتھ برقی نطام پر منتقل کر دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اس کے لیے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے اندر ہی موٹر، بیٹریاں اور دیگر آلات نصب کر کے چارجنگ سے چلنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا استعمال جاری ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف کمپنیاں الیکٹرک اور ہائی برڈ گاڑیاں اور موٹر سائیکل فروخت کر رہی ہیں۔
لیکن فیصل گجر کی طرح پرانی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں انجن کے ساتھ الیکٹرک نظام پر منتقلی ابھی عام نہیں ہے۔
فیصل گجر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گاڑیوں کو الیکٹرک کرنے کے لیے ایک کنٹرولر لگایا جاتا ہے جو بیٹری سے پاور لیتا ہے اور اسے موٹر کی طرف منتقل کرتا ہے۔
’موٹر جو انجن کے طور پر کام کرتی ہے یہ جتنے زیادہ واٹ کی ہو گی گاڑی اتنی طاقتور ہو گی۔ بیٹری بینک جتنے زیادہ ایمپیئر کی ہو گی اتنی فی کلو میٹر اوسط بھی بڑھتی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک بار بیٹری چارج کرنے کے بعد گاڑی 100 سے 500 کلومیٹر تک چل سکتی ہے۔
’لیکن اس کا انحصار بیٹری پر ہوتا ہے جتنے زیادہ ایمپیئر کی بیٹری ہو گی اتنا زیادہ فاصلہ طے ہو گا۔ جبکہ رفتار کا انحصار موٹر پر ہوتا ہے جتنے زیادہ واٹ کی موٹر ہو گی رفتار بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔‘
فیصل کے مطابق ’پاکستان میں ابھی تک جو بیٹری استعمال ہو رہی ہے وہ لیتھیم آئن اور لیتھیم آئرن فاسفیٹ سے بنی ہوئی ہیں کیونکہ یہ ایڈوانس ٹیکنالوجی کی وجہ سے کم وزن رکھتی ہیں ان میں تھوڑے حجم میں زیادہ کرنٹ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘
فیصل کے بقول: ’ہم گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نہ صرف ہائبرڈ یعنی پیٹرول اور بیٹری سے چلنے کے قابل بناتے ہیں بلکہ انجن نکال کر صرف الیکٹرک پر بھی منتقل کر دیتے ہیں۔
’اگرچہ بیٹریاں یا موٹر وغیرہ سے گاڑی میں وزن بڑھ جاتا ہے مگر اسے اس طرح سیٹ کیا جاتا ہے کہ کوئی دشواری پیش نہ آئے۔‘
ان کے مطابق: ’تین سال سے ہم یہ کام کر رہے ہیں گاڑیاں اور موٹر سائیکل کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہم نے الگ سے چھوٹے پیمانے پر خود ڈیزائن کر کے بھی ایک چھوٹی گاڑی تیار کی ہے جو صرف الیکٹرک نظام پر چلتی ہے۔ یہ دو سیٹوں کی رکشے سے بھی چھوٹی گاڑی ہے جو تجرباتی طور پر بنائی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جدید سولر پلیٹوں کے ذریعے گاڑی کی بیٹریوں کا چارج کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ ہم نے ایک گاڑی میں سولر پلیٹیں لگا کر بیٹری کو مسلسل چارجنگ سے 800 کلومیٹر تک چلانے کا تجربہ بھی کیا ہے۔‘
فیصل کا کہنا ہے کہ ’میں باقاعدہ کہیں سے روایتی طور پر کام سیکھ کر مکینک نہیں بنا بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار کرتا تھا۔ یہ خیال آیا کہ کیوں نہ الیکٹرک گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا تجربہ کیا جائے۔ لہذا سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز سے آگاہی حاصل کی اور متعلقہ مکینکس سے مشورے کیے۔
’پھر جو سامان یہاں سے ملتا تھا خرید لیا جو یہاں دستیاب نہیں تھا وہ چین سے منگوایا۔ اس طرح یہ تجربہ کامیاب ہو گیا اور اب کئی گاڑیاں اور موٹر سائیکل الیکٹرک نظام پر منتقل کر چکے ہیں۔‘
فیصل نے کہا کہ ’بیٹری چارجنگ ٹائمنگ کا انحصار چارجر پر ہوتا ہے جتنا بہتر چارجر ہو گا اتنے کم وقت میں بیٹری چارج ہوتی ہے کم سے کم تیس منٹ زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے چارجنگ ٹائم ہوتا ہے۔
’جہاں تک قیمتوں کا تعلق ہے تو سو سوا سو کلو میٹر تک الیکٹرک پر چلنے والی چھوٹی گاڑی ساڑھے چار لاکھ، جبکہ چار یا پانچ سو کلو میٹر ایک بار چارجنگ سے چلنے والی بڑی گاڑیاں 10 سے 12 لاکھ میں تیار کرتے ہیں۔
’گاڑی کی کم از کم سپیڈ 100 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔ اسی طرح موٹر سائیکل ایک لاکھ 35 ہزار تک تیار ہوتی ہے جو 80,90 کلو میٹر تک سپیڈ اور اتنا ہی فاصلہ ایک بار چارجنگ میں طے کرتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’موٹر سائیکل کے پچھلے پہیے میں موٹر جبکہ سیٹ کے نیچے بیٹری فٹ ہوتی ہے جبکہ چارجر اور کنٹرولر کو بھی ٹینکی کے ساتھ ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے دعوی کیا کہ ’یہ گاڑیاں نئی الیکٹرک گاڑیوں کی نسبت سستی اور معیاری ہوتی ہیں۔ ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طرف شہری پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تنگ آ کر منتقل ہو رہے ہیں۔
’لیکن حکومت کی سطح پر اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں نہ ہی کوئی تعاون حاصل ہے۔ نہ ہی چارجنگ سٹیشن شہروں میں پوری طرح موجود ہیں۔ لوگ اپنے طور پر ہی چارجر سے اپنی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کی بیٹریاں چارج کرتے ہیں۔‘
پاکستان کے کئی شہروں بشمول لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں متعدد چارجنگ سٹیشن موجود ہیں لیکن اتنے عام نہیں جتنی بڑی تعداد میں پیٹرول پمپ موجود ہیں۔
حکومت نے گذشتہ سالوں میں موٹر ویز پر بھی چارجنگ سٹیشن بنانے کا ٹھیکہ دیا تھا مگر ابھی تک پوری طرح الیکٹرک چارجنگ سٹیشن ضرورت کے مطابق دکھائی نہیں دیتے۔
حال ہی میں پنجاب حکومت نے بھی مرحلہ وار پنجاب کی طالبات میں 20 ہزار الیکٹرک موٹر سائیکل تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم ملک بھر الیکٹرک وہیکل پالیسی پوری طرح رائج نہیں ہو سکی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔