برطانیہ کے چڑیا گھروں پر 18 ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد جانوروں کی فلاح و بہبود کے معیارات کی ہزاروں واضح خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
کینٹ میں حیوانات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے رفاہی ادارے ایسپنال فاؤنڈیشن کے محققین نے 29 چڑیا اور مچھلی گھروں کا دورہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہاتھی سرد موسم میں کھلے میں رکھے جاتے ہیں۔ ریچھ کنکریٹ کی دیواروں والے باڑوں میں بند ہیں، اور جنگلی کتے باہر ہوتے ہیں جہاں ان کے لیے بستر کا انتظام نہیں۔
محققین نے ان چڑیا گھروں پر توجہ مرکوز کی جو یورپین ایسوسی ایشن آف زوز اینڈ ایکویریا (ای اے اے زیڈ اے) سے تسلیم شدہ ہیں۔ اس تصدیق نامے کو زائرین کو یقین دلانے کے لیے ’طلائی معیار‘ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جن جانوروں کو دیکھ رہے ہیں ان کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ انہیں ای اے زیڈ اے کی ہدایات کی تین ہزار 74 خلاف ورزیاں ملیں۔
حال ہی میں برطانوی چڑیا گھروں کے معاملے میں الگ سے پریشان کن شہ سرخیاں سامنے آئیں۔
جانوروں کے حقوق کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے ایک چڑیا گھر میں مسلسل خرابیوں کی وجہ سے جانور غائب ہو گئے، مر گئے اور بیمار پڑ گئے۔
ایک اور چڑیا گھر اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب ایک سلوتھ (بندرنما جانور) کی ان سیڑھیوں پر تصویر کھینچی گئی جو چڑیا گھر آنے والے لوگ استعمال کرتے ہیں اور آرڈوارکس (چیونٹی خور جانور) ایسی جگہ سونے کی کوشش رہے تھے جہاں لوگ اکثر شیشے پر ہاتھ مارتے ہیں۔
یہ حقیقت کہ چڑیا گھروں میں جانور اکثر تکلیف اٹھاتے ہیں شاید ہی کوئی خبر ہو۔ اس سے قبل ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانیہ کے چڑیا گھروں اور سفاری پارکوں میں جانوروں کے لیے بنائے گئے احاطے قدرتی رہائش گاہوں میں واقع ان کے گھروں کے کم ازکم علاقے سے اوسطاً 100 گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔
برسٹل یونیورسٹی کے محققین کے مطابق، تین چوتھائی سے زیادہ برطانوی چڑیا گھر جانوروں کی فلاح و بہبود کے تمام کم از کم معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
یہاں تک کہ جو چڑیا گھر جانوروں کے تحفظ پر پر توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ اخلاقی طور پر مشکوک ہیں ، کیوں کہ عام طور پر ’عظیم تر فلاح‘ کے نام پر انفرادی جانوروں کی آزادیوں اور ضروریات پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔
لیکن چڑیا گھر جانوروں کو جو بڑا نقصان پہنچاتے ہیں وہ علامتی ہے۔ وہ کسی ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جسے کم تر سمجھنا کہا جاتا ہے۔
یہ غالب فلسفہ ہے کہ جانوروں کی ایک قسم کے ارکان اخلاقی طور پر جانوروں کی دوسری قسم کے ارکان مقابلے میں زیادہ اہم ہیں۔ یا زیادہ واضح طور پر کہا جائے کہ یہ سمجھنا کہ بلیوں اور کتوں کو پیار کیا جائے لیکن گائے اور خنزیر مار دیے جانے کے مستحق ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چڑیا گھر میں ایک دن گزارنا بچپن کی جانا پہچانی تفریح ہے۔ ہمارے والدین ہمیں ساتھ لے جاتے ہیں اور ہم دیکھے جانے کے لیے موجود خوبصورت اور پرکشش جانوروں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ’وہ بہت پیارے ہیں۔‘ ’مجھے جانوروں سے پیار ہے!‘
لیکن پھر ہم اپنے دوپہر کے کھانے کے لیے چڑیا گھر کی کینٹین میں جاتے ہیں، جہاں ہم گایوں، خنزیروں اور بھیڑوں کی باقیات کھاتے ہیں، جنہیں ہمارے لیے مار دیا گیا۔ یہ تجربات ہمیں سکھاتے ہیں کہ صرف کچھ جانور ہی تحفظ کے مستحق ہیں۔
کچھ چڑیا گھر واضح طور پر دوسروں کے مقابلے میں بدتر ہیں، اور ہاں، بہت سے چڑیاں گھروں میں تحفظ کے منصوبے موجود ہیں۔ میں مانتا کہ زیادہ تر چڑیا گھروں میں کام کرنے والے لوگ جانوروں کے معاملے میں بدخواہ ہیں۔
لیکن ہر سال 90 ارب سے زیادہ جانوروں کو ان کے گوشت کے لیے مار دیا جاتا اور جب تک چڑیا گھر اس بڑے پیمانے پر جانوروں کو ذبح کرنے کی وجہ بننے والی ’نسل پرستی‘ میں اتنا اہم اور نظریاتی کردار ادا کرتے رہیں گے، وہ جو بھی اچھا کام کریں گے وہ ہمیشہ ان کے ہاتھوں پر لگے خون سے متاثر رہے گا۔
جو کوئی اپنے بچوں کو مثبت انداز میں جانور دکھانے لے جانا چاہتا ہے اس چاہیے کہ وہ جانوروں کی پناہ گاہوں میں جائیں (اور فنڈ میں رقم دیں) جو جانوروں کو بھرپور اور اخلاص کے ساتھ تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ مثال کے طور کینٹ میں واقع ریٹریٹ اینیمل ریسکیو پناہ گاہ جنہں کھانے میں سبزی پسند کرنے والے لوگ چلا رہے ہیں اور یہ پناہ گاہ اپنی کینٹین میں صرف سبزیاں پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کی پناہ گاہ جانے کی صورت میں بچوں کو جانوروں کے ساتھ حقیقی محبت کرنا سیکھنے موقع ملے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent